جہاد دین کا پانچواں بنیادی رکن ہے۔ یہ پانچ ارکان شہادتیں کے بعد ایما ن والوں کے اعضاء سے ظاہر ہونے والے وہ افعال ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ اہل ایمان توحید ،نبوت اور قیامت پر پورا پورا یقین رکھتے ہیں۔ جس طرح ایمان بالغیب کے سارے ارکان اجتماعی اور انفرادی دونوں سطحوں پر انجام دئیے جاسکتے ہیں جیسے نماز باجماعت بھی پڑھی جاتی ہے اور الگ بھی۔ حج بیت اللہ اجتماعی ہوتا ہے لیکن عمرہ انفرادی طور پر بھی کیا جاسکتاہے ۔ زکواۃ حکومتی سطح پر اجتماعی طور پر بھی وصول کی جاسکتی ہے ۔ روزہ سحری اور افطار کے اوقات میں اجتماعی طور پر بھی رکھا جاسکتا ہے اور گھروں کے اندر انفرادی سطح پر بھی رکھا اور کھولا جاسکتاہے ۔ بالکل اسی طرح شروع شروع میںچونکہ معاشرے قبائلی رسم ورواج کی عکاس تھے اس لئے جنگیں بھی من حیث القوم لڑا کرتی تھیں۔ اس کے باوجود احایث مبارکہ کی روشنی میںجہاد اکبر اور جہاد اصغر کی تقسیم روشناس کرادی گئی تھی ۔ اللہ رسول کے دشمنوں کے ساتھ تیر و تلوار ،نیزے ،بھالے، ڈھال اور زرہ سے لیس جسمانی طور پر لڑنا اپنے نفس کے خلاف لڑنے کی نسبت جہاد اصغر کہلاتا ہے ۔ مشہور زمانہ حدیث پاک ہے کہ ’’ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جہادبھی دیگر ارکان دین کی طرح اجتماعیت کے ساتھ ساتھ انفرادیت کی سطح پر بھی لڑا جاسکتاہے ۔نہ صرف ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد کہلاتا ہے بلکہ ظالم اور جابر انہ ماحول میںبھی کلمہ حق کہناجہاد ہوتاہے ۔جھوٹوں کے درمیان سچ کہنا،لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانا بھی جہاد ہے ۔ منافقت کے مقابلے میں خلوص کا پرچار بھی جہاد ہوتاہے ۔ انفرادی جہاد کا یہ عمل گھر کی چاردیواری کے اندر سے لے کر گلی محلے ، برادری قوم، قبیلے اور معاشرتی سطح تک ہر جگہ اور ہرمقام پر جہاد بن سکتاہے ۔ کربلا کے اندوہناک سانحہ کے بعددوریزیدیت میں بد ترین ظلم وبربریت کے ہوتے ہوئے علم لدنی پرمبنی موثر ترین اور حیرت انگیر دعائوں کے ذریعے ،امام زین العابدین نے روحانی جہاد جاری رکھا ۔ یہ جہاد کا وہ انوکھا طریقہ تھا جو آج تک جاری ہے اور جس پرکوئی گرفت نہیں کرسکتا کیونکہ یہ ہرگز کسی بھی حکومت کے خلاف بیان بازی پر مبنی نہیں بلکہ رب تعالی او ر رسول پاکؐ کی حقانیت اور ہدایات کی تشریح اور توضیح پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق صرف بھلائی اور فلاح سے ہوتا ہے دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح اور کامیابی سے ہوتا ہے ۔ اس سے بڑا جہاد اور کیا ہوسکتاہے؟ پاکستان اور اسرائیل دنیا کے وہ دو ایسے ممالک ہیں جنکا وجود اسلام اور یہودیت کے نام پرعمل میں آیا ۔ فرق یہ ہے کہ اسرائیل نے یہودیت کے نام پر پوری بظاہر مہذب دنیا کو اس طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیا کہ اسرائیل کی محبت میںوہ اپنی عزت گنوا بیٹھی جبکہ ہم دین کو اپنی دنیا سے نکال دیا ۔ اس سے بھی زیادہ اچھپنے کی اورمضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہم شرمسارہونے کے قابل ہی نہیں رہے ۔کیوں؟ اس لئے کہ دین کی زبان میںشرمساری توبہ کہلاتی ہے۔ آدمی کو اپنی غلطی کا احساس دلا کر شرمندہ کرتی ہے۔ وہ صلاحیت عطا کرتی ہے کہ آدمی ببانگ دہل اپنی غلطی مان کر غلط سے صحیح ر استے پر چڑھ جاتاہے اس طرح وہ اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کرلیتا ہے۔ توبہ کی توفیق بھی اللہ ہی عطا کرتا ہے ، امریکہ او ر برطانیہ نہیں ۔ تبھی تو ا قبال فرماگئے ہیں۔ آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا اس پس منظر کے ساتھ میں آپ کو انفراد ی جہاد کی ایک زندہ مثال دینا چاہتاہوں۔ اس مثال کا نام عمار جعفری ہے جو پاکستان میںای گورنیس، ڈیجٹیل سسٹم ، مصنوعی ذہانت ، سائبیر معلومات اور ملک اور قوم کے لئے ان سب جدید ترین ذرائع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے اس میدان کا عبدالستار ایدھی ہے جو بچے بچے کو کمربستہ اور تیار کرنے میںمصروف ہے۔ گذشتہ 18 جنوری کو انھوں نے اپنے دفتر میںملک کے اندر اور باہر سے اُن درد دل رکھنے والے انتہا ئی پڑھے لکھے اور سنجیدہ خیالات کے حامل لوگوں کے ساتھ ملکر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا ’’ہوش کے ناخن لو‘‘ اس ورکشاپ میں چیدہ چیدہ ایسے دانشور حضرات وخواتین اور ماہرین نے شرکت کی جو باتوں سے آگے بڑھکر عملی اقدام کرنے والے قابل فخر لوگ ہیں ۔ ورکشاپ کے انعقاد کا سہرہ عمار جعفری کے ساتھ حسن سید کے سر رہا ۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والے دانشور وں اور ماہرین حضرات وخواتین کو اتنی بڑی تعداد میںایک چھت تلے جمع ہوکر ،پورے خلوص اور انہماک کے ساتھ ملکی اور قومی مسائل سے نجات کے لئے مختلف راستے اور طریقے بتاتے دیکھا ۔ ورکشاپ کے بعد ’’ آپ دولت ہیں‘‘ کے عنوان سے برطانیہ سے آئے ہوئے جناب محمد ثاقب ان ضروری باتوں پر دوگھنٹے تک مختلف طریقوں سے سمجھا سمجھا کر لیکچر دیا جنہیں سن کر مجھ سا بہتر سالہ بوڑھا بھی قائل ہوگیا کہ اب بھی اگر ہم ٹیڑھی میٹرھی پکڈنڈیوں سے سیدھے راستے پر آجائیں تو دہائیوں کی ناکامیاں مہنیوں میں کامیابیاں دکھا سکتی ہیں۔ ورکشاپ میںکی گئی سیر حاصل گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ ایک مسلمان جب اور جہاں چاہے انفرادی جہاد جاری رکھ سکتاہے۔ بچیماں باپ کا دین ہی نہیںان کی دنیا بھی اختیار کرتے ہیں۔ بچوں کی تربیت باتوں سے زیادہ کردار سے ہوتی ہے دروازہ کھٹکنے پر جب باپ اپنے بچے کو یہ کہہ کر کہ بھیجے ’’اگر میرا پوچھے توکہہ دینا ابو گھر پر نہیںہیں‘‘ اس کے بعد ابو زندگی بھر اس کی تربیت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا۔ ہم بچے پیدا کرنا جانتے ہیں باپ بننا نہیں۔ اپنے بچوں کی اگر ہم انسان ساز ی نہ کرسکے توانہی اندھروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ سات سال کی عمر سے بچہ اگر انسان بننے سے رہ گیا تو کبھی انسان نہیں بن سکے گا۔ حکومت جدید ترین کا رپوریٹ ایئگری سسٹم روشناس کرنے جارہی ہے اور اس سلسلے میں ایک لاکھ ایکڑ اراضی مختص کرنے کا منصوبہ ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں کو ارضی ٹھیکے پر دینے کی بجائے اگر یہی اراضی زرعی یوینورسیٹیوں اور کالجوں کے اپنے نوجوانوں کو انفرادی یا اپنی مدد آپ کی بنیادوں پر ایک ایک ایکڑ بھی دیدی جائے تو ان کے اندر اتنا دم ہے کہ تھوڑے عرصہ میںمعجزے دکھا سکیں ۔ زراعت میں جدید زرعی تکنیکوں کو روبکار لاکرزرعی انقلاب برپاکیا جاسکتا ہے۔ جناب اللہ والا نے بھی کراچی سے آن لائن خطاب میںبتایا کہ کس طرح اپنے اسکولوں میںوہ ساتویں جماعت کے طلبہ اور طالبات کو مبلغ پانچ سو ڈالر ماہانہ کمانے کے قابل بنارہے ہیں ۔جناب محمد ثاقب کے مطابق اپنی ’’جذباتی ذہانت ‘‘ کو پوری طرح قابو میں رکھنا ہوگا ۔ اس کیلئے صرف تین الفاظ please, Sorry and Thank you کا استعمال ہر سطح اور ہر مقام پر زندگی کا حصہ بنانا ہوگا ۔
QOSHE - انفرادی جہاد - موسیٰ رضا آفندی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انفرادی جہاد

9 0
27.01.2024




جہاد دین کا پانچواں بنیادی رکن ہے۔ یہ پانچ ارکان شہادتیں کے بعد ایما ن والوں کے اعضاء سے ظاہر ہونے والے وہ افعال ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ اہل ایمان توحید ،نبوت اور قیامت پر پورا پورا یقین رکھتے ہیں۔ جس طرح ایمان بالغیب کے سارے ارکان اجتماعی اور انفرادی دونوں سطحوں پر انجام دئیے جاسکتے ہیں جیسے نماز باجماعت بھی پڑھی جاتی ہے اور الگ بھی۔ حج بیت اللہ اجتماعی ہوتا ہے لیکن عمرہ انفرادی طور پر بھی کیا جاسکتاہے ۔ زکواۃ حکومتی سطح پر اجتماعی طور پر بھی وصول کی جاسکتی ہے ۔ روزہ سحری اور افطار کے اوقات میں اجتماعی طور پر بھی رکھا جاسکتا ہے اور گھروں کے اندر انفرادی سطح پر بھی رکھا اور کھولا جاسکتاہے ۔ بالکل اسی طرح شروع شروع میںچونکہ معاشرے قبائلی رسم ورواج کی عکاس تھے اس لئے جنگیں بھی من حیث القوم لڑا کرتی تھیں۔ اس کے باوجود احایث مبارکہ کی روشنی میںجہاد اکبر اور جہاد اصغر کی تقسیم روشناس کرادی گئی تھی ۔ اللہ رسول کے دشمنوں کے ساتھ تیر و تلوار ،نیزے ،بھالے، ڈھال اور زرہ سے لیس جسمانی طور پر لڑنا اپنے نفس کے خلاف لڑنے کی نسبت جہاد اصغر کہلاتا ہے ۔ مشہور زمانہ حدیث پاک ہے کہ ’’ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جہادبھی دیگر ارکان دین کی طرح اجتماعیت کے ساتھ ساتھ انفرادیت کی سطح پر بھی لڑا جاسکتاہے ۔نہ صرف ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد کہلاتا ہے بلکہ ظالم اور جابر انہ ماحول میںبھی کلمہ حق کہناجہاد ہوتاہے ۔جھوٹوں کے درمیان سچ کہنا،لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانا بھی جہاد ہے ۔ منافقت کے مقابلے میں خلوص کا پرچار........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play