انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور لوگوں سے اسلحہ واپس لینا جیسے موضوعات تب سے پیش نظر ہیں جب کوچہء لفظ و حرف میں قدم رکھا۔ ہوش سنبھالنے سے پہلے ضیا الحق کا دور ختم ہو گیا۔ہم نے جس قدر جائزہ لیا یہی پتہ چلا کہ ملک کی تاریخ سے یہ عہد نکالا جا سکتا تو آج پاکستان روشن ہوتااور فسادی نظریات سے پاک ہوتا۔بعد میں آنے والی عسکری و سول قیادت اسی دور کا بوجھ اتارتی رہی۔ پیٹر ٹی کولمین اور اینڈریا بارٹولی کے مطابق انتہا پسندی ایک پیچیدہ رجحان ہے، اس کی پیچیدگی کا جائزہ لینا اکثر مشکل ہوتا ہے۔اس کی سب سے آسان تعریف کسی کردار کی سرگرمیوں (عقائد، رویے، احساسات، اعمال، حکمت عملی) کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ انتہا پسندی ایک شدید شکل کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم، سرگرمیوں، لوگوں اور گروہوں پر "انتہا پسند" کے طور پر لیبل لگانا عام ہے ۔ہمارے ہاں یہ طرز عمل میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک انتہا پسند دوسرے کو انتہا پسند قرار دے رہا ہوتا ہے۔شدت پسند گروہوں کی الگ الگ دکانیں آ خر کسی وجہ سے تو ہوں گی ناں۔انتہا پسندیکی تعریف ہمیشہ ایک موضوعی اور سیاسی معاملہ ہوتا ہے۔میرے دوست تجویز کرتے ہیں کہ انتہا پسندی کے بارے میں کسی بھی بحث کے دوران مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن میں رکھیں: عام طور پر، اسی انتہا پسندانہ عمل کو کچھ لوگ منصفانہ اور اخلاقی (جیسے کہ سماجی و "سیاسی آزادی کی لڑائی") کے طور پر دیکھیں گے۔ یہ سب غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی مبصر کی اقدار، سیاسی میلانات، اخلاقی دائرہ کار اور کسی قومی یا بین الاقوامی کردار کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت پر منحصر ہے۔جیسا کہ بن لادن کے ہمخیال ہونا،جیسا کہ ٹی ٹی پی کا ہمنوا ہونا،جیسا کہ فاشزم کا پیروکار ہونا،جیسا کہ بی جے پی کے نظریات سے گندھا ہندوتوا کا مجسمہ ۔ انتہا پسندی کے عمل کو اخلاقی یا غیر اخلاقی معیاروں پر پرکھنا (جیسے نیلسن منڈیلا کا جنوبی افریقی حکومت کے خلاف گوریلا جنگی حربوں کا استعمال) حالات (قیادت، عالمی رائے، بحران، تاریخی اکاؤنٹس وغیرہ)مختلف ادوار اور علاقوں میں ایک دوسرے سے الگ ہو سکتا ہے ۔ اس طرح انتہا پسندانہ کارروائیوں کا موجودہ اور تاریخی تناظر ان کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کو تشکیل دیتا ہے۔ انتہا پسندی کی تعریف کرتے وقت طاقت کے تصور کے متعلق اختلافات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ جب تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو کم طاقت والے گروپوں کے اراکین کی سرگرمیوں کو سٹیٹس کو کی حمایت کرنے والے گروپوں کے اراکین کی طرف سے زیادہ شدید سمجھا جاتا ہے۔ عسکریت پسندی میں جسمانی تشدد، مسلح لڑائی، دہشت گردی وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں ۔ برطانیہ میں ٹراٹسکی عسکریت پسند گروپ نے ایک اخبار شائع کیا، یہ گروپ مزدوروں کے تنازعات میں سرگرم تھا، سیاسی اجلاسوں میں قراردادیں پیش کی گئیں، جو تشدد پر مبنی نہیں تھیں۔مغرب میں چرچ کے اثرو رسوخ میں عسکریت پسند کا مقصد گناہ کے خلاف، شیطان کے مقابل اور "... اس دنیا کے اندھیرے کے حکمرانوں، اعلی طبقات کی روحانی شرارت کے خلاف جدوجہد کرنا عسکریت پسندی بتاتا ہے" ۔ لیکن یہ کوئی پرتشدد تحریک نہیں ہے۔اخبارات، میگزین، اور دیگر معلوماتی ذرائع عسکریت پسندوں اور گوریلا افراد کو غیر جانبدار اصطلاحات کے طور پر تصور کر سکتے ہیں جبکہ دہشت گرد روایتی طور پر اس فرد یا تنظیم کے ناپسندیدہ رویئے کی نشاندہی کرتا ہے جس پر اس طرح کا لیبل لگایا گیا ہے۔ عسکریت پسند کوئی ایساشخص ہو سکتا ہے جو رسمی مسلح افواج کا رکن نہ ہو لیکن جو کسی جنگ میں مصروف ہو یا جنگجو کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہو،داعش ، تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان میں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے اسی نوع کے عسکریت پسند ہیں۔۔ذرائع ابلاغ کبھی کبھی دہشت گردی کے تناظر میں "عسکریت پسند" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔صحافی بعض اوقات دہشت گردی کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نیم ملیشیا تحریکوں کے لئیعسکریت پسند کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے دہشت گرد تنظیموں کے لیے عسکریت پسند گروہ یا بنیاد پرست عسکریت پسند کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی اکثر اپنی قوت کے اظہار کے لئے ہتھیاروں پر انحصار کرتی ہیں۔ سماج میں قانون کی بالا دستی کمزور ہو، نظام انصاف لاغر ہو اور انتہا پسندی کئی گروہوں کی معیشت کا درجہ اختیار کر لے تو ہتھیاروں کا عام ہونا سماج کو بد امنی کا شکار بنا دیتا ہے۔وطن عزیز میں سماجی رتبہ ہتھیاروں کی نمائش کے ساتھ جڑ چکا ہے اسی لئے ماضی میں ہتھیاروں سے سماج کو پاک کرنے کی مہمیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔پاکستان کی سرحدوں پر بگاہ ڈالیں اور سوچیں کہ اگر اب بھی اقدامات نہیں کیے گئے تو مسئلہ قابو سے باہر ہو سکتا ہے۔تخمینے بتاتے ہیں کہ ملک میں لاکھوں ہتھیار موجود ہیں۔ بندوقیں سرحدوں کے پار سے پاکستان میں آرہی ہیں جبکہ ملک کے اندر درہ آدم خیل جیسے علاقے بھی غیر قانونی اسلحہ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ہمارے شہروں اور قصبوں میں ہتھیار پھیلانیکی سپلائی لائنوں کو کاٹنا ضروری ہے۔ آخری صارف کو نشانہ بنانا اہم ہے، لیکن اسلحے کی غیر قانونی تجارت میں ملوث پورے نیٹ ورک کے پرزوں سمگلر، سپلائی کرنے والے، تقسیم کار، سرکاری اہلکار کو ختم کر نا ہو گا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پہلے سے زیادہ بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے، امید ہے کہ وہ اسلحے کی سمگلنگ کو روکنے میں موثر ثابت ہوں گی۔ مسلح فرقہ وارانہ ملیشیا اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ پرتشدد عناصر کا قلع قمع کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ انتخابات کے موقع پرہتھیاروں کی نمائش پر - بشمول سیاستدانوں اورانتہا پسندی، عسکریت پسندی اور لوگوں سے اسلحہ واپس لینا جیسے موضوعات تب سے پیش نظر ہیں جب کوچہء لفظ و حرف میں قدم رکھا۔ ہوش سنبھالنے سے پہلے ضیا الحق کا دور ختم ہو گیا۔ہم نے جس قدر جائزہ لیا یہی پتہ چلا کہ ملک کی تاریخ سے یہ عہد نکالا جا سکتا تو آج پاکستان روشن ہوتااور فسادی نظریات سے پاک ہوتا۔بعد میں آنے والی عسکری و سول قیادت اسی دور کا بوجھ اتارتی رہی۔ پیٹر ٹی کولمین اور اینڈریا بارٹولی کے مطابق انتہا پسندی ایک پیچیدہ رجحان ہے، اس کی پیچیدگی کا جائزہ لینا اکثر مشکل ہوتا ہے۔اس کی سب سے آسان تعریف کسی کردار کی سرگرمیوں (عقائد، رویے، احساسات، اعمال، حکمت عملی) کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ انتہا پسندی ایک شدید شکل کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم، سرگرمیوں، لوگوں اور گروہوں پر "انتہا پسند" کے طور پر لیبل لگانا عام ہے ۔ہمارے ہاں یہ طرز عمل میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک انتہا پسند دوسرے کو انتہا پسند قرار دے رہا ہوتا ہے۔شدت پسند گروہوں کی الگ الگ دکانیں آ خر کسی وجہ سے تو ہوں گی ناں۔انتہا پسندیکی تعریف ہمیشہ ایک موضوعی اور سیاسی معاملہ ہوتا ہے۔میرے دوست تجویز کرتے ہیں کہ انتہا پسندی کے بارے میں کسی بھی بحث کے دوران مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن میں رکھیں: عام طور پر، اسی انتہا پسندانہ عمل کو کچھ لوگ منصفانہ اور اخلاقی (جیسے کہ سماجی و "سیاسی آزادی کی لڑائی") کے طور پر دیکھیں گے۔ یہ سب غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی مبصر کی اقدار، سیاسی میلانات، اخلاقی دائرہ کار اور کسی قومی یا بین الاقوامی کردار کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت پر منحصر ہے۔جیسا کہ بن لادن کے ہمخیال ہونا،جیسا کہ ٹی ٹی پی کا ہمنوا ہونا،جیسا کہ فاشزم کا پیروکار ہونا،جیسا کہ بی جے پی کے نظریات سے گندھا ہندوتوا کا مجسمہ ۔ انتہا پسندی کے عمل کو اخلاقی یا غیر اخلاقی معیاروں پر پرکھنا (جیسے نیلسن منڈیلا کا جنوبی افریقی حکومت کے خلاف گوریلا جنگی حربوں کا استعمال) حالات (قیادت، عالمی رائے، بحران، تاریخی اکاؤنٹس وغیرہ)مختلف ادوار اور علاقوں میں ایک دوسرے سے الگ ہو سکتا ہے ۔ اس طرح انتہا پسندانہ کارروائیوں کا موجودہ اور تاریخی تناظر ان کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کو تشکیل دیتا ہے۔ انتہا پسندی کی تعریف کرتے وقت طاقت کے تصور کے متعلق اختلافات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ جب تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو کم طاقت والے گروپوں کے اراکین کی سرگرمیوں کو سٹیٹس کو کی حمایت کرنے والے گروپوں کے اراکین کی طرف سے زیادہ شدید سمجھا جاتا ہے۔ عسکریت پسندی میں جسمانی تشدد، مسلح لڑائی، دہشت گردی وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں ۔ برطانیہ میں ٹراٹسکی عسکریت پسند گروپ نے ایک اخبار شائع کیا، یہ گروپ مزدوروں کے تنازعات میں سرگرم تھا، سیاسی اجلاسوں میں قراردادیں پیش کی گئیں، جو تشدد پر مبنی نہیں تھیں۔مغرب میں چرچ کے اثرو رسوخ میں عسکریت پسند کا مقصد گناہ کے خلاف، شیطان کے مقابل اور "... اس دنیا کے اندھیرے کے حکمرانوں، اعلی طبقات کی روحانی شرارت کے خلاف جدوجہد کرنا عسکریت پسندی بتاتا ہے" ۔ لیکن یہ کوئی پرتشدد تحریک نہیں ہے۔اخبارات، میگزین، اور دیگر معلوماتی ذرائع عسکریت پسندوں اور گوریلا افراد کو غیر جانبدار اصطلاحات کے طور پر تصور کر سکتے ہیں جبکہ دہشت گرد روایتی طور پر اس فرد یا تنظیم کے ناپسندیدہ رویئے کی نشاندہی کرتا ہے جس پر اس طرح کا لیبل لگایا گیا ہے۔ عسکریت پسند کوئی ایساشخص ہو سکتا ہے جو رسمی مسلح افواج کا رکن نہ ہو لیکن جو کسی جنگ میں مصروف ہو یا جنگجو کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہو،داعش ، تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان میں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے اسی نوع کے عسکریت پسند ہیں۔۔ذرائع ابلاغ کبھی کبھی دہشت گردی کے تناظر میں "عسکریت پسند" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔صحافی بعض اوقات دہشت گردی کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نیم ملیشیا تحریکوں کے لئیعسکریت پسند کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے دہشت گرد تنظیموں کے لیے عسکریت پسند گروہ یا بنیاد پرست عسکریت پسند کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی اکثر اپنی قوت کے اظہار کے لئے ہتھیاروں پر انحصار کرتی ہیں۔ سماج میں قانون کی بالا دستی کمزور ہو، نظام انصاف لاغر ہو اور انتہا پسندی کئی گروہوں کی معیشت کا درجہ اختیار کر لے تو ہتھیاروں کا عام ہونا سماج کو بد امنی کا شکار بنا دیتا ہے۔وطن عزیز میں سماجی رتبہ ہتھیاروں کی نمائش کے ساتھ جڑ چکا ہے اسی لئے ماضی میں ہتھیاروں سے سماج کو پاک کرنے کی مہمیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔پاکستان کی سرحدوں پر بگاہ ڈالیں اور سوچیں کہ اگر اب بھی اقدامات نہیں کیے گئے تو مسئلہ قابو سے باہر ہو سکتا ہے۔تخمینے بتاتے ہیں کہ ملک میں لاکھوں ہتھیار موجود ہیں۔ بندوقیں سرحدوں کے پار سے پاکستان میں آرہی ہیں جبکہ ملک کے اندر درہ آدم خیل جیسے علاقے بھی غیر قانونی اسلحہ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ہمارے شہروں اور قصبوں میں ہتھیار پھیلانیکی سپلائی لائنوں کو کاٹنا ضروری ہے۔ آخری صارف کو نشانہ بنانا اہم ہے، لیکن اسلحے کی غیر قانونی تجارت میں ملوث پورے نیٹ ورک کے پرزوں سمگلر، سپلائی کرنے والے، تقسیم کار، سرکاری اہلکار کو ختم کر نا ہو گا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پہلے سے زیادہ بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے، امید ہے کہ وہ اسلحے کی سمگلنگ کو روکنے میں موثر ثابت ہوں گی۔ مسلح فرقہ وارانہ ملیشیا اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ پرتشدد عناصر کا قلع قمع کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ انتخابات کے موقع پرہتھیاروں کی نمائش پر - بشمول سیاستدانوں اور دیگر 'اشرافیہ' کے ساتھ آنے والے محافظوں پر سختی سے پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اگر سماج میں لا اینڈ آرڈر کو بحال کرنا ہے تو ایک موثر، منصوبہ بند، پوری طرح سے ہتھیاروں سے پاک کرنے کی مہم چلائی جائے، ان نظریات پر نظر رکھی جائے جو انتہا پسندی کو عسکریت پسندی میں ڈھال رہے ہیں۔ دیگر 'اشرافیہ' کے ساتھ آنے والے محافظوں پر سختی سے پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اگر سماج میں لا اینڈ آرڈر کو بحال کرنا ہے تو ایک موثر، منصوبہ بند، پوری طرح سے ہتھیاروں سے پاک کرنے کی مہم چلائی جائے، ان نظریات پر نظر رکھی جائے جو انتہا پسندی کو عسکریت پسندی میں ڈھال رہے ہیں۔
QOSHE - انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور ہتھیاروں سے پاک سماج کا خواب - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور ہتھیاروں سے پاک سماج کا خواب

7 0
21.01.2024




انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور لوگوں سے اسلحہ واپس لینا جیسے موضوعات تب سے پیش نظر ہیں جب کوچہء لفظ و حرف میں قدم رکھا۔ ہوش سنبھالنے سے پہلے ضیا الحق کا دور ختم ہو گیا۔ہم نے جس قدر جائزہ لیا یہی پتہ چلا کہ ملک کی تاریخ سے یہ عہد نکالا جا سکتا تو آج پاکستان روشن ہوتااور فسادی نظریات سے پاک ہوتا۔بعد میں آنے والی عسکری و سول قیادت اسی دور کا بوجھ اتارتی رہی۔ پیٹر ٹی کولمین اور اینڈریا بارٹولی کے مطابق انتہا پسندی ایک پیچیدہ رجحان ہے، اس کی پیچیدگی کا جائزہ لینا اکثر مشکل ہوتا ہے۔اس کی سب سے آسان تعریف کسی کردار کی سرگرمیوں (عقائد، رویے، احساسات، اعمال، حکمت عملی) کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ انتہا پسندی ایک شدید شکل کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم، سرگرمیوں، لوگوں اور گروہوں پر "انتہا پسند" کے طور پر لیبل لگانا عام ہے ۔ہمارے ہاں یہ طرز عمل میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک انتہا پسند دوسرے کو انتہا پسند قرار دے رہا ہوتا ہے۔شدت پسند گروہوں کی الگ الگ دکانیں آ خر کسی وجہ سے تو ہوں گی ناں۔انتہا پسندیکی تعریف ہمیشہ ایک موضوعی اور سیاسی معاملہ ہوتا ہے۔میرے دوست تجویز کرتے ہیں کہ انتہا پسندی کے بارے میں کسی بھی بحث کے دوران مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن میں رکھیں: عام طور پر، اسی انتہا پسندانہ عمل کو کچھ لوگ منصفانہ اور اخلاقی (جیسے کہ سماجی و "سیاسی آزادی کی لڑائی") کے طور پر دیکھیں گے۔ یہ سب غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی مبصر کی اقدار، سیاسی میلانات، اخلاقی دائرہ کار اور کسی قومی یا بین الاقوامی کردار کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت پر منحصر ہے۔جیسا کہ بن لادن کے ہمخیال ہونا،جیسا کہ ٹی ٹی پی کا ہمنوا ہونا،جیسا کہ فاشزم کا پیروکار ہونا،جیسا کہ بی جے پی کے نظریات سے گندھا ہندوتوا کا مجسمہ ۔ انتہا پسندی کے عمل کو اخلاقی یا غیر اخلاقی معیاروں پر پرکھنا (جیسے نیلسن منڈیلا کا جنوبی افریقی حکومت کے خلاف گوریلا جنگی حربوں کا استعمال) حالات (قیادت، عالمی رائے، بحران، تاریخی اکاؤنٹس وغیرہ)مختلف ادوار اور علاقوں میں ایک دوسرے سے الگ ہو سکتا ہے ۔ اس طرح انتہا پسندانہ کارروائیوں کا موجودہ اور تاریخی تناظر ان کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کو تشکیل دیتا ہے۔ انتہا پسندی کی تعریف کرتے وقت طاقت کے تصور کے متعلق اختلافات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ جب تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو کم طاقت والے گروپوں کے اراکین کی سرگرمیوں کو سٹیٹس کو کی حمایت کرنے والے گروپوں کے اراکین کی طرف سے زیادہ شدید سمجھا جاتا ہے۔ عسکریت پسندی میں جسمانی تشدد، مسلح لڑائی، دہشت گردی وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں ۔ برطانیہ میں ٹراٹسکی عسکریت پسند گروپ نے ایک اخبار شائع کیا، یہ گروپ مزدوروں کے تنازعات میں سرگرم تھا، سیاسی اجلاسوں میں قراردادیں پیش کی گئیں، جو تشدد پر مبنی نہیں تھیں۔مغرب میں چرچ کے اثرو رسوخ میں عسکریت پسند کا مقصد گناہ کے خلاف، شیطان کے مقابل اور "... اس دنیا کے اندھیرے کے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play