نفرتیں اور محبتیں دو دھاری تلوار کی مانند ہوتی ہیں۔ آدمی کی ساری ،حرکتیں، سوچیں اور خواہشات کسی ناکسی بات یا چیز سے محبت یانفرت کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نفرتیں اور محبتیں حواس خمسہ تک محدود ہوتی ہیں۔ دونوںیکساں طور پر اُس حد تک طاقتور ہوتی ہیں کہ سارے حقوق چاہے اللہ کے ہوں یا انسان کے چھین سکتی ہیں۔ اللہ نے اپنے حبیب ؐ پاک سے محبت اورشیطان مردود سے نفرت تعلیم کی ہے۔ اللہ نے اپنی محبت اطاعت رسولؐ میں اور شیطان سے ہمہ وقت نفرت اصل ایمان پر حج بیت اللہ کے دوران اسے کنکریاں مارنے کے فرض میں کررکھی ہے۔ کیوں؟ صراط مستقیم پر اسی صورت میں چلا جاسکتاہے جب آدمی سیدھے راستے سے محبت اور دوسرے تمام راستوں سے نفرت کرے۔ نفرتیں اور محبتیں نیکیوں کو بدیوں اور بدیوں کو نیکیوں میں بدل دیتی ہیں ۔ دونوں صورتوں میں آدمی اندھا ہوجاتا ہے۔ جس مہذب دنیا کے گن گاکر ہم اپنے آپ کو قابل احترام سمجھتے ہیں ان کی دانش کے مطابق All is fair in love and war(یعنی محبت اورجنگ (نفرت ) میں سب جائز ہے) کا تقابل جب ہم دین مصطفیٰ سے کرتے ہیں تو ایک بچہ بھی اس نیتجے پر پہنچ جاتاہے کہ مہذب وہ نہیں اس دین اسلام کے ماننے والے جو لاشوں کا مثلہ کرنے سے بھی منع کرتا ہے ۔ آج کی مہذب دنیا اب بھی اُسی اخلاقی پسماندگی کا شکار ہے جو قتل کے بعد کچا جگر چبانے کی بدترین روایات پر قائم ہے۔ مہذب دنیا نے اسرئیلی بربریت کی ببا نگ دہل حمایت کرکے اپنی گمراہی کی حقیقت آشکار کردی ہے ۔ نفرتیں اورمحبتیں سارے رشتے کھا جاتی ہیں۔اس کا اظہار گھروں کے اندر ساس اور بہو او رنند اور بھابی کے باہمی جھگڑوں اور چپقلشوں سے ہوتا رہتاہے ۔یہ سب باتیں کسی نا کسی سے نفرت یا محبت کا شاخسانہ ہو تی ہیں ۔ تبھی تو قرآن اعلان کرتاہے ’’انھیں کہہ دیجئے کہ اگرتم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اطاعت کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘ رسول ؐ کی اطاعت نفرتوں اور محبتوںکو جو معیار قائم کرتی ہے وہ رحم ، ہمدردی او راحسان پرمبنی ہوتا ہے ۔ مسلمان کے لئے اللہ کے حکم رسولؐ کی اطاعت کے ذریعے اللہ سے محبت اور شیطان سے دُوری اختیار کرنے کے ذریعے اُس سے نفرت کا اعلان ناصرف ظاہربلکہ دل سے بھی ضروری ہے۔ اسی کو ایمان کہتے ہیں جو زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق پر مبنی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت زیادہ مشکل باتوں کا حل نکالنے والے ارباب دانش وفہم ، بعض اوقات چھوٹی چھوٹی با توں کو بھی نہیں سمجھ پاتے ۔کہتے ہیںایک دفعہ آئن سٹائن جیسا عظیم سائنسدان بس میںسفر کے دوران کنڈیکٹر سے ریزگاری کے پورانہ ہونے پر استفسارکرنے لگاتو اُسنے گن کر اُسے بتاتے ہوئے کہا ’’حساب نہیں آتاتواستفسا ر مت کرو‘‘ آٹھ ارب کی آبادی میں مسلمان تقریبا ً ڈیڑھ ارب ہیں جبکہ بقیہ ساڑھے چھ ارب کی آبادی والے غیر مسلم بھی اپنے اندر آکسفورڈ ،کیمرج ، ہاروڈ ، اسٹیمفڈ اور انسڈ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ہونے اور NASAجیسے تحقیقی اداروں میںمختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والے بھی اپنے ہی ہاتھوں کے تراشیدہ بتوں کو بھگوان مانتے ہیں۔ جنوں کی مانند معجزات برپا کرنے والی چینی قوم دوسری طرف توہم پرستی کا اس حد تک شکار ہے کہ نئے چینی سال میںاس وقت تک دکان نہیں کھولتی جب تک بتائی گئی نحوست کی گھڑیا ںختم نہ ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف چاند تک پہنچ جانے والا انسان ابھی تک دوسری طرف کنویں میں ڈول ڈال رہاہے ۔ خدا کو لاشریک نہ ماننے والے عقل سے عاری نہیں ہوتے لیکن آنکھوں سے اندھے ،کانوں سے بہرے اور دلوں پر لگی مہر والے ضرور ہوتے ہیں۔ انھیںوہ کچھ صحیح اور ٹھیک لگتا جیسے وہ صحیح ٹھیک سمجھنا چاہتے ہیں انھیں صحیح اور غلط لگنا ان کی عقل سے نہیں،ان کے گمان اور خواہشات سے صحیح اور ٹھیک لگتا ہے۔ ایک ماں کو اپناچور اچکا بیٹا بھی لاکھوں میں ایک لگتا ہے۔ اس طرح کا ایک بیٹا روز ماں سے کہتاتھا ’’دعا کروماں میں تھایندار بن جائوں ‘‘ ماں بیچاری دعا کردیتی تھی۔ ایک دن ماں نے یونہی بیٹے سے پوچھ لیا ’’ بیٹا جب تو تھایندار بن جائے گا تو کیا کرے گا؟ ‘‘ اسے فوراً جواب دیا ’’ماں میں تیری ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘ ہمارے اندر بھی جو تھا یندار بن جاتے ہیں پاکستان جیسی عظیم ماں دھرتی کی ٹانگین توڑنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ایک کم ظرف ہی احسان فراموش ہوسکتاہے ۔للہ کا فرمان تو یہ ہے ’’احسان کا بدلہ سوائے احسان کے کچھ نہیں‘‘ نفرتوں کا کمال محبتوں سے زیادہ اورمحبتوں کا نفرتوں سے زیادہ ہوتاہے ۔ ایک دوسرے کو مات دینے میں دونوں مصروف رہتی ہیں۔ دونوں کی پہنچ اور شدت کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی ۔ مسلمان نماز کے دوران بھی عبادت کے ساتھ ساتھ نفرتوں اورمحبتوں کے غلبے سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا ۔نماز کے اندر توجہ کا فقدان انہی کے کارن ہوتاہے۔ اس لئے کہ نفرتوں اور محبتوں کے حصار نے زندگی کے ہر اُتار چڑھائو ،اُونچ نیچ اور زاویوں کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی رشتہ اور تعلق ،نفرتوں یا محبتوں سے مبرا نہیں ۔ لوگ دولت سے محبت رکھتے ہیں۔ جائیدادوں ، جاگیروں ، کارخانوں ، طرح طرح کے کاروباروں ، کرسیوں ،سواریوں ، روایات ، رسوم ورواج ، خواہشوں اورگمانوں کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور انہی محبتوں کے حوالے سے ان کی راہ میں سدراہ ہونے والوں کے ساتھ اسی حساب اور شدت کے ساتھ نفرت کرتے ہیں۔ پہلے جو رشتے مقدس اور قابل تعیظم جانے جاتے تھے ، فحاشہ و عریانی نے ان تمام رشتوں کو پامال کرکے اس طرح ذلیل وخوار کردیا ہے کہ کسی ر شتے کو بھی مقدس نہیں رہنے دیا ہے۔ اس صورت حال کو حضرت علیؓ کے اس فرمان کے تناظر میں دیکھا جائے توبات واضح ہوجاتی ہے ’’اگر تم لوگوں کو ایک دوسرے کے بارے میں ایک دوسرے کے خیالات کا علم ہوجائے تو تم ایک دوسرے کو دفنانا بھی پسند نہ کرو‘‘ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی عبادات بھی مکمل خشوع وخصوع کے ساتھ انجام نہیں ہوپاتی ۔ آج بیچارے مسلمان کی عبادت بھی انہی خرافات کی نذرہورہی ہے ۔کیا اس گھمبیر صورت حالات کا کوئی توڑ بھی ہے؟ نظر آتی ہی نہیں صورت حالات کوئی اب یہی صورت حالات نظر آتی ہے اس کا ایک ہی توڑ ہے ۔ کہ محبتیں او ر نفرتیں اپنی ذات اور مفادات کے لئے نہیںبلکہ اللہ کی رضا اور رسولؐ کی اطاعت میں کی جائیں ۔ اللہ کی رضاکے لئے محبتوں سے لبریز اورنفرتوں پر حاوی لوگ موت کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور اپنی ذات اور مفادات کیلئے محبتوں کے دلدادہ اور نفرتوں کے پروردہ ،زندگی میںبھی مردہ اور مرنے کے بعد بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نابود ہوجاتے ہیں۔ جو کرسیوں کے لئے جیتے ہیں ان کے چھنتے ہی نظروں سے اوجھل اور یادوں سے محو ہوجاتے ہیں۔ کہ کرسیء اقتدارکیلئے علی مرتضیٰ فرماتے ہیں ’’اگر یہ کرسی مضبوط ہوتی تو آج تجھ تک تجھے کیسے پہنچتی ؟ اگر صرف یہ ایک فرمان سمجھ میں آجائے تو ایک دوسرے کے لئے باہمی محبتیں اور نفرتیں خو د بخود دم توڑ دیں گی جس سے اللہ رسول کے حقوق ساتھ ساتھ انسانوں کے حقوق بھی بحال ہوجائیں گے۔
QOSHE - نفرتیں اور محبتیں - موسیٰ رضا آفندی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

نفرتیں اور محبتیں

14 0
13.01.2024




نفرتیں اور محبتیں دو دھاری تلوار کی مانند ہوتی ہیں۔ آدمی کی ساری ،حرکتیں، سوچیں اور خواہشات کسی ناکسی بات یا چیز سے محبت یانفرت کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نفرتیں اور محبتیں حواس خمسہ تک محدود ہوتی ہیں۔ دونوںیکساں طور پر اُس حد تک طاقتور ہوتی ہیں کہ سارے حقوق چاہے اللہ کے ہوں یا انسان کے چھین سکتی ہیں۔ اللہ نے اپنے حبیب ؐ پاک سے محبت اورشیطان مردود سے نفرت تعلیم کی ہے۔ اللہ نے اپنی محبت اطاعت رسولؐ میں اور شیطان سے ہمہ وقت نفرت اصل ایمان پر حج بیت اللہ کے دوران اسے کنکریاں مارنے کے فرض میں کررکھی ہے۔ کیوں؟ صراط مستقیم پر اسی صورت میں چلا جاسکتاہے جب آدمی سیدھے راستے سے محبت اور دوسرے تمام راستوں سے نفرت کرے۔ نفرتیں اور محبتیں نیکیوں کو بدیوں اور بدیوں کو نیکیوں میں بدل دیتی ہیں ۔ دونوں صورتوں میں آدمی اندھا ہوجاتا ہے۔ جس مہذب دنیا کے گن گاکر ہم اپنے آپ کو قابل احترام سمجھتے ہیں ان کی دانش کے مطابق All is fair in love and war(یعنی محبت اورجنگ (نفرت ) میں سب جائز ہے) کا تقابل جب ہم دین مصطفیٰ سے کرتے ہیں تو ایک بچہ بھی اس نیتجے پر پہنچ جاتاہے کہ مہذب وہ نہیں اس دین اسلام کے ماننے والے جو لاشوں کا مثلہ کرنے سے بھی منع کرتا ہے ۔ آج کی مہذب دنیا اب بھی اُسی اخلاقی پسماندگی کا شکار ہے جو قتل کے بعد کچا جگر چبانے کی بدترین روایات پر قائم ہے۔ مہذب دنیا نے اسرئیلی بربریت کی ببا نگ دہل حمایت کرکے اپنی گمراہی کی حقیقت آشکار کردی ہے ۔ نفرتیں اورمحبتیں سارے رشتے کھا جاتی ہیں۔اس کا اظہار گھروں کے اندر ساس اور بہو او رنند اور بھابی کے باہمی جھگڑوں اور چپقلشوں سے ہوتا رہتاہے ۔یہ سب باتیں کسی نا کسی سے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play