آدمی جو بات بھی کرتاہے۔ اسکے پیچھے کوئی نا کوئی مطلب ہوتاہے۔ ممکن ہے وہ مطلب سننے والے کے ساتھ ساتھ خود بات کرنے والے کو بھی شعوری طور پر پتہ نہ ہو لیکن ہر بات کاکوئی نہ کوئی مطلب ضرور ہوتا ہے ۔یہاں مطلب سے مراد مقصد ہے بات ہمیشہ بو ل کرکی جاتی ہے جس سے مقصد ظاہر ہوجاتاہے ۔جب مقصد ظاہر ہو تو بندے کامقام،مرتبہ ،حیثیت ،کم ظرفی یا اعلیٰ ظرفی بھی ظاہرہوجاتی ہے۔ تبھی تو علی مرتظیٰ فرماتے ہیں ’’بولو کہ پہچانے جائو‘‘ جس طرح بولنے سے خطیب پہچانا جاتاہے اسی طرح لکھنے سے لکھاری کی شناخت ہوجاتی ہے۔ لکھاری چاہے منصف ہو، مصنف ہو، ڈاکٹر یاحکیم ہو، عالم فاضل ہو، شاعر وادیب ہو یا آج کا صحافی ہو، اپنی تحریر سے بالکل اُسی طرح پہچانا جاتاہے جس طرح بولنے والا پہچانا جاتاہے۔ آدمی چاہے بھی تو اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعے لاکھ ذہانت اورچالاکی کے باوجود خود کو چھپا نہیں سکتا۔ اُسکی گفتگواور تحریر کے ذریعے اس کا باطن فوراً ظاہر ہوجاتا ہے ۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ اُجلے اُجلے صاف ستھرے اوربے دا غ کپڑے پہننے سے اندر کی غلاظت ختم نہیں ہوسکتی۔ جہلاکا گروہ ہے جو سمجھتا ہے کہ ظاہری صفائی باطنی طہارت کی علامت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ میٹھی میٹھی باتیں کرنے والا جھوٹا ، دغاباز ،چالاک اور منافق بھی ہوسکتاہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’ تم جب کسی کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائو تو اس بات پر اترائو مت، بلکہ یہ دیکھو کہ اُس کا تم پر اعتبار کتناتھا؟‘‘ دھوکے باز کا اعتماد اور یقین دونوںعارضی اور ناپائیدار ہوتے ہیں ۔ مجھے یا دہ ہے کہ جب کئی سال پہلے ایک دن میں جب اسلام آباد کے سیکٹر ایف 6کے کرکٹ گرائونڈمیں خواجہ ظہیر صاحب جو ایک معتبر نام کے مالک ہیں ،کے ساتھ واک کر رہا تھا تو انھوں نے اپنے کسی عزیر بچے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انکے ساتھ واک کے دوران وہ بچہ اچانک دوڑ کر ایک مشہور ومعروف شخصیت کی طرف لپکا جو گرائوند میںآنے کے لئے گاڑی پارک کررہی تھی تاکہ اُن سے آٹوگراف لے سکے۔ لیکن جب بچہ فوراً ہی واپس آگیا تو خواجہ صاحب کے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ جب اس شخصیت نے گاڑی سے اترتے ہوئے اپنا بجھا ہوسگریٹ کھڑی سے باہر زمین پر پھینکا تو اُس معصوم نے ان سے آٹوگراف لینے کا ارادہ ترک کردیا۔ مطلب یہ ہے کہ اچھی تربیت والے گھروں کے بچے بھی فوراً پہچان جاتے ہیں کہ کون کیا ہے؟ عام لوگوں کو تو بیوقوف سمجھا جاتاہے کیونکہ وہ اسکول کالج اور یونیورسٹی نہیں جاتے۔ جو لوگ دوسروں کی نظر میں بہت پڑھ لکھ کر اور نمایا ں کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد اور مقابلے کا امتحان پاس کرکے، مملکت خداد پاکستان کی اعلیٰ اور بہترین ملازمتوں کے لئے سامنے آتے ہیں، پاکستان کے ایک مایہ ناز جج جناب جسٹس محمد رستم کیانی مرحوم نے ایک مرتبہ لاہور کی سول سروسز اکیڈمی کے سالانہ عشائیے میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا "Gentlmen, No doubt you are the cream of the Society. But let me tell you with full confidence that you are the cream of a very dirty socitety " مطلب ’’معزز حضرات اس میںشک نہیںکہ آپ اس معاشرہ کے بہترین لوگ ہیں لیکن میںپورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ آپ ایک غلیظ ترین معاشرے کے بہترین لوگ ہیں ‘‘ بعدکی تاریخ نے جسٹس محمد رستم کیانی کے اس مشاہدے کو حرف بہ حرف سچ ثابت کردکھایا کہ محض پڑھائی لکھائی اور کتابیں پڑھ لینے سے آدمی معزز اور باکردار نہیں بن سکتا۔ ہمارے بدنصیب ملک میںمقابلے کا امتحان پاس کرنے والے بڑی بڑی کرسیوں پربرا جمان ہوکرجوگل کھلاتے ہیں اسکا ہم عرصہ دراز سے خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے لوگ اللہ رسول کی بات مانیں یا نہ مانیں لیکن اپنے سے بہت زیادہ کم تر ،اَن پڑھ اور مغرور لیکن طاقت ور لوگوں کاحکم ماننے میں ہی اپنی بڑائی سمجھتے ہیں۔ پچھلے زمانے میں ڈھنڈورچیوں کے ذریعے جھوٹ کو سچ بناکر پھیلایا جاتا تھا اور آج میڈیا اور خاشامدی صحافیوں کے ذریعے باطل کو حق بناکر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس طرح عشق اور مشک کسی طرح بھی چھپائے چھپ نہیں سکتے بالکل اسی طرح باتوں اور تقریروں کے پیچھے بدبودار مطالب اور مقاصد بھی نہیں چھپ سکتے ۔زوال کی عمیق ترین پستیوں میں دھنس جانے والے ہمارے معاشرے میںخوشامدیوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکاہے جو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے حساب سے ’’بڑے لوگوں ‘‘ کے آگے خود کو پیش کرنے میں مصروف رہتاہے ۔ قصیدہ گو کبھی بھی کہیں بھی معزز اور قابل ستائش نہیں رہا۔ غالب جیسا عظیم خوددار بے مثل دانشورشاعر، اسی لئے اس احساس کے ساتھ خود پر طنز کرنے سے بھی باز نہ رہ سکتا۔ غالب وظیفہ خوار ہو دوشاہ کو دعا وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیںہوں میں خوشامدی وہ ہوتاہے جو اپنی ہستی کو کی ناقدری کرکے دوسرے کی عزت بڑھاتاہے ۔ خوشامدی کا سب سے بڑا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا مطلب نکالنے کے لئے ایک بے عزت کو عزت دار اور جھوٹے کو سچا بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہ جس کی خوشامدکرتاہے صرف اسی پریقین رکھتاہے جو وقتی طور پر اسے اُوپر اٹھا سکتاہے۔ خوشامد،گناہ ، تکبر ،حسد ،بغض ، جھوٹ ،عناد ،محبت ،نفرت ،حقارت اور منافقت کی طرح آدمی کی سرشت میںداخل ہے۔ یہ غرور اور تکبر کی طرح شرک کی طرف لے جانے کا آسان ترین نسخہ ہے۔ تکبر میںآدمی خود اللہ کا شریک بننے کی جسارت کرتا ہے ۔جس کے باعث ہزاروں سال پر محیط فرشتوں کی صف میں عبادت کے باوجود شیطان راندہ درگاہ رب العزت قرار پاتاہے۔ اس طرح خوشامدی اپنی ساری خواہشات اور آرزو ئیں اسی سے وابستہ کرلیتا ہے جس کی خوشامد کرتاہے۔خوشامد، آدمیت کی پست ترین شکل ہے کیونکہ وہ اپنی ہی طرح کے ایک حقیر اور فقیر شخص کو خدا کی جگہ بٹھا دیتا ہے۔ پوجا چاہے بت کی کی جائے یا اپنی ہی طرح کے کسی شخص کی، کفر کی طرف لے جاتی ہے۔ تبھی تو اقبال فرماتے ہیں۔ بتوں سے تجھ کو امید یں خدا سے ناامیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟ خوشامدی اسی شرک اور الحاد کے ساتھ پانچوں نمازیں پڑھتاہے ۔پورے پورے روزے رکھتا ہے۔ حج اور عمرے بجالاتاہے ۔حرام کو حلال سمجھ کر کھا جاتاہے اوراکبر الہ آبادی کے مطابق ’’بی اے کیا نوکر ہوئے ، پنشن ملی اور مرگئے ـ‘‘ کے مصداق کوئی نام ونشان چھوڑے بغیر زمین میں دفن ہو جاتاہے ۔ خوشامدی کی بے مائیگی سے اسے موت ہی سے نجات دلا سکتی ہے۔اسی لئے بات ہمیشہ اللہ اور اسکے رسولﷺ کے لئے کرنی چاہے، اپنے مطلب کے لئے نہیں۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔آمین۔
QOSHE - مطلب کی باتیں - موسیٰ رضا آفندی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مطلب کی باتیں

11 0
06.01.2024




آدمی جو بات بھی کرتاہے۔ اسکے پیچھے کوئی نا کوئی مطلب ہوتاہے۔ ممکن ہے وہ مطلب سننے والے کے ساتھ ساتھ خود بات کرنے والے کو بھی شعوری طور پر پتہ نہ ہو لیکن ہر بات کاکوئی نہ کوئی مطلب ضرور ہوتا ہے ۔یہاں مطلب سے مراد مقصد ہے بات ہمیشہ بو ل کرکی جاتی ہے جس سے مقصد ظاہر ہوجاتاہے ۔جب مقصد ظاہر ہو تو بندے کامقام،مرتبہ ،حیثیت ،کم ظرفی یا اعلیٰ ظرفی بھی ظاہرہوجاتی ہے۔ تبھی تو علی مرتظیٰ فرماتے ہیں ’’بولو کہ پہچانے جائو‘‘ جس طرح بولنے سے خطیب پہچانا جاتاہے اسی طرح لکھنے سے لکھاری کی شناخت ہوجاتی ہے۔ لکھاری چاہے منصف ہو، مصنف ہو، ڈاکٹر یاحکیم ہو، عالم فاضل ہو، شاعر وادیب ہو یا آج کا صحافی ہو، اپنی تحریر سے بالکل اُسی طرح پہچانا جاتاہے جس طرح بولنے والا پہچانا جاتاہے۔ آدمی چاہے بھی تو اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعے لاکھ ذہانت اورچالاکی کے باوجود خود کو چھپا نہیں سکتا۔ اُسکی گفتگواور تحریر کے ذریعے اس کا باطن فوراً ظاہر ہوجاتا ہے ۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ اُجلے اُجلے صاف ستھرے اوربے دا غ کپڑے پہننے سے اندر کی غلاظت ختم نہیں ہوسکتی۔ جہلاکا گروہ ہے جو سمجھتا ہے کہ ظاہری صفائی باطنی طہارت کی علامت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ میٹھی میٹھی باتیں کرنے والا جھوٹا ، دغاباز ،چالاک اور منافق بھی ہوسکتاہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’ تم جب کسی کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائو تو اس بات پر اترائو مت، بلکہ یہ دیکھو کہ اُس کا تم پر اعتبار کتناتھا؟‘‘ دھوکے باز کا اعتماد اور یقین دونوںعارضی اور ناپائیدار ہوتے ہیں ۔........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play