ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ چھٹیاں کیاہوتی ہیں؟ چھٹی کی تعریف کیا ہے؟ پتہ چلا چھٹی کام نہ کرنے کی سہولت کا نام ہے ۔ سورہ حدید کی آیت 4کیمطابق ’’وہ وہی ہے جس نے آسمان کو اور زمین کو چھ دنوں میںپیدا کیا اور پھرتخت قدرت پر جلوہ گر ہوا۔ جو کچھ زمین میں جذب ہوجاتاہے وہ اسے جانتاہے ۔ جو زمین سے خارج ہوتاہے اور جو آسمان سے نازل ہوتاہے۔ اور جو کچھ آسمان کی طرف بلند ہوتاہے ۔وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی رہو۔اور جسے تم انجام دیتے ہو خدا اُسے دیکھتا ہے‘۔‘ قرآن میںکہیں نہیں لکھا کہ چھ ادوار میںکائنات کو پیدا کرنے کے بعداللہ نے آرام کے لئے چھٹی کی۔ وہ تو زندہ اور قائم ہے اُ سے نہ اُونگھ آتی ہے اور ہی نیند۔ یہ بات تو اس کی شان کے خلاف ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لئے بھی غافل ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے احکامات میں بھی کوئی چٹھی نہیں۔ اللہ نے کوئی دن ایسا مقرر نہیںکیا جس میںنماز پڑھنے کی چھٹی ہو۔ سچ بولنے کی چھٹی ہو،نیکی کرنے کی چھٹی ہو۔ بغض ،دھوکہ ،جھوٹ ،ریاکاری ،عداوت اور منافقت کے لئے کوئی دن نہیں مقرر ہوا ۔ ‘‘ اللہ نے فرائض کی ادائیگی میںسہولتیں ضروری دی ہیں جیسے قصر نماز اور بیماری میںروزے کی چھوٹ لیکن چھٹی کہیں بھی نہیں دی۔ نظام قدرت میں چھٹی نہیں ہوتی ۔ کیا بیماری میںچھٹی ہوتی ہے؟ کیا مصیبت اور غربت چھٹیوں پر جاتے ہیں؟ کیا چھٹیوںسے مسائل حل ہوتے ہیں؟ چھٹیوں کا نظریہ ترقی یافتہ اور بظاہر مـہذب دنیا کا دیاہوا تحفہ ہے ۔ کیا محاذ جنگ پر چھٹی ہوتی ہے؟ ترقی یافتہ ملکوں میںاور غریب ممالک کے متمول لوگ چھٹیوں میںسیروتفریح کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالمی معیشت میں چھٹیاں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیںجس سے سیاحت کی اربوںڈالر کی صنعت پروان چڑھتی ہے ۔ اللہ کانظام چھٹیوں پر نہیں مہد سے لحد تک کام کام اور صرف کام کرنے کے ایما ن پر قائم ہے ۔ اسی لئے دل کی کوئی دھڑکن چھٹی پرنہیں جا سکتی ۔ بصارت اورسماعت میںکوئی چھٹی نہیں، نہ نوالے توڑنے میںچٹھی ہے اورنہ ہی نسل بڑھانے میںچھٹی ہے۔ یعنی نظام زندگی میں کوئی چھٹی نہیں۔ اس زندگی کا واحد اور لاشریک مالک ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا کیونکہ وہ ’’تھا‘‘ ’’ہے‘‘ اور ’’ہوگا‘‘ سے بلند ترہے۔ زمان ومکان اس نے پیدا کئے کیونکہ وہ وہی ہے جو ہر پیدائش سے پہلے تھا اور ہر موت کے بعد بھی رہے گا۔ اس بات کو سورہ رحمان نے صاف صاف سمجھا دیا ہے کہ ’’وہ رحمان ہے جس نے قرآن کاعلم سکھایا ، انسان کوخلق کیا اور اُسے بیان کی قوت عطا کی ‘‘ قرآن کیوں بار بار غور وتدبر کرنے پر زور دیتا ہے؟ اسی لئے کہ اللہ کے کلام کو پوری سنجیدگی اور سمجھ کے ساتھ پڑھا جائے تاکہ اِس پر خلوص نیت کے ساتھ عمل کرنے کے قابل ہوسکے ۔کیا یہ غور کرنے کی بات نہیں ہے کہ وہ جو رحمان ہے اس نے قرآن کی تعلیم پہلے دی اور انسان کی تخلیق بعد میںکی ۔اب تو یہ حدیث مبارک سمجھ میں آجانی چاہے ’’میں ؐ اس وقت بھی نبی ؐ تھا جب آدم ؑ کا جسم مٹی اور پانی میںتھا‘‘ تبھی تو اقبال فرماتے ہیں آں امام او ّلین وآخریں جس طرح اللہ عالمین کا رب ہے حضورؐ عالمین کے لئے رحمت ہیں۔ قرآن مسلمانوں کے لئے رحمت ہے جبکہ حضورؐ عالمین کے لئے رحمت ہیں۔مسلمان کو ایک اورغلط فہمی ہے کہ جس طرح عیسائیوں کے لئے اتوار اور یہودیوں کے لئے ہفتہ چھٹی کا دن ہوتا ہے اسی طرح مسلمانوںکے لئے جمعہ کا دن چھٹی کادن رکھا گیا ہے۔سورہ جمعہ کی آیات مبارکہ اس خیال کی نفی کرتی ہیں ۔سورہ کی آیت 9کے مطابق ’’جب جمعہ کی اذان دی جائے تو اس وقت خرید وفروخت ترک کردو۔ اگر سمجھو تو تمہارے حق میں بہتر ہے‘‘ آگے آیت نمبر 10میں ارشاد فرمایا ’’ پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو بہت یاد کرتے رہو تاکہ کامیاب ہوجائو‘‘ اب اس میں چھٹی کہاں ہے؟ جب آدمی کسی کام کے پیچھے پڑجائے تو ہرچیز سے بیگانہ ہوکر تن من دھن اسی کام کی طرف لگادیتاہے ۔ بیوی اور بچوں کی محبت میںاللہ رسول سمیت ہر بات اور ہرچیز کوبالائے طاق رکھ دیتا ہے۔ سب کا م کرتے ہوئے اسے لمحہ بھر کے لئے بھی چھٹی کا خیال نہیں آتا ۔ کیوں ؟ اسلئے کہ کسی بھی اچھے یا برے مقصد کے حصول کے لئے چھٹی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ہم آئے دن چھٹی کرنے کے بہانے ڈھونڈتے رہے ہیں۔ چیئرمین مائوزے تنگ سے پہلے چین کے عظیم وزیراعظم چواین لائی کی وفات ہوئی جس پرپوری چینی قوم غمزدہ ہوگئی ۔ اس صورت حال کا سامنا کرنے لئے چیئر مین مائو نے اعلا ن کیا کہ چونکہ چواین لائی نے زندگی بھر چین کی عظمت بحال کرنے کے لئے کام کیا، لہذا اُس کی موت کے غم کو ہم ایک دن ڈبل کام کرکے منائیں گے جس سے ایک طرف آنجہانی وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کریں گے اور دوسری طرف اس غم واندوہ کے سانحے کو اپنی قوت میں تبدیل کردیں گے ۔ اس طرح کی سوچ سے آج چین نے دنیا کو حیران اور پریشان کررکھا ہے۔ میںجب جنوبی کوریا میںتعینات تھا تو کورینزبھی یہی بات کرتے تھے ’’ہم نو سے پانچ بجے تک اپنے لئے کام کرتے ہیںاور پانچ سے سات بجے تک کوریا کے لئے کام کرتے ہیں‘‘ یہاں ہم اپنے مرے ہوئے عزیزواقارب کو چھٹی کے لئے بار بار مارتے ہیں اور کام کے دوران دس منٹ کی نماز کو دوگھنٹے تک پھیلادینے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ میری نسل نے جس ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ چھٹی کا یہ تماشازندگی بھر لگائے رکھا اسکی مثال دنیاکے کسی اور ملک میںنہیں ملتی ۔ میری نسل کی اکثریت زندگی بھر کام نہ کرنے کی آج تنخوائوں سے زیادہ پنشن وصول کررہی ہے اور پھر بھی لاف زنیوںسے باز نہیں آتی۔ کیسے؟ اس لئے کہ سفارشوں ،رشتوں اور سیاسی بنیادوں پربھر تی ہونے والے کام کیوں کریں گے ۔ ہندکو میںایک بددعا دی جاتی ہے ’’چلّا ہوکے مریں‘‘ یعنی اللہ کرے تم پاگل ہوکر مرو۔ ہم من حیث القوم پاگل ہورہے ہیں ۔نہ جانے ہمیں کن مظلوموں ،معصوموں ، بے کسوں اور لاچاروں کی بدعا لگ گئی ہے کہ ہمیں پاگلوں کی طرح کوئی بات سمجھ میںہی نہیں آرہی ۔ ہم صرف چٹھیاں منانا جانتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے عیش و آرام کی زندگی گزارنی ہے ۔ ہم اپنے ملک کو چھٹیاں منانے کے قابل بھی نہیں سمجھتے ۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین
QOSHE - چھٹیوں کی عیاشی - موسیٰ رضا آفندی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

چھٹیوں کی عیاشی

20 0
30.12.2023




ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ چھٹیاں کیاہوتی ہیں؟ چھٹی کی تعریف کیا ہے؟ پتہ چلا چھٹی کام نہ کرنے کی سہولت کا نام ہے ۔ سورہ حدید کی آیت 4کیمطابق ’’وہ وہی ہے جس نے آسمان کو اور زمین کو چھ دنوں میںپیدا کیا اور پھرتخت قدرت پر جلوہ گر ہوا۔ جو کچھ زمین میں جذب ہوجاتاہے وہ اسے جانتاہے ۔ جو زمین سے خارج ہوتاہے اور جو آسمان سے نازل ہوتاہے۔ اور جو کچھ آسمان کی طرف بلند ہوتاہے ۔وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی رہو۔اور جسے تم انجام دیتے ہو خدا اُسے دیکھتا ہے‘۔‘ قرآن میںکہیں نہیں لکھا کہ چھ ادوار میںکائنات کو پیدا کرنے کے بعداللہ نے آرام کے لئے چھٹی کی۔ وہ تو زندہ اور قائم ہے اُ سے نہ اُونگھ آتی ہے اور ہی نیند۔ یہ بات تو اس کی شان کے خلاف ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لئے بھی غافل ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے احکامات میں بھی کوئی چٹھی نہیں۔ اللہ نے کوئی دن ایسا مقرر نہیںکیا جس میںنماز پڑھنے کی چھٹی ہو۔ سچ بولنے کی چھٹی ہو،نیکی کرنے کی چھٹی ہو۔ بغض ،دھوکہ ،جھوٹ ،ریاکاری ،عداوت اور منافقت کے لئے کوئی دن نہیں مقرر ہوا ۔ ‘‘ اللہ نے فرائض کی ادائیگی میںسہولتیں ضروری دی ہیں جیسے قصر نماز اور بیماری میںروزے کی چھوٹ لیکن چھٹی کہیں بھی نہیں دی۔ نظام قدرت میں چھٹی نہیں ہوتی ۔ کیا بیماری میںچھٹی ہوتی ہے؟ کیا مصیبت اور غربت چھٹیوں پر جاتے ہیں؟ کیا چھٹیوںسے مسائل حل ہوتے ہیں؟ چھٹیوں کا نظریہ ترقی یافتہ اور بظاہر مـہذب دنیا کا دیاہوا تحفہ ہے ۔ کیا محاذ جنگ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play