خوابوں کاہماری زندگی سے بڑاگہرا تعلق ہے اس تعلق سے انکار ہرگز ممکن نہیں کیونکہ ہمارے خواب ہی ہمیں بتلاتے ہیں کہ ابھی ہم نامکمل ہیں۔ ہمارا ارد گرد بھی نامکمل ہیں۔ اس لئے ہم اپنا چہرہ نہیں دیکھ سکتے ۔ہماری آنکھیںدل اور دماغ نہیں دیکھ سکتیں۔ اسکے باوجود مغرور ہیں کہ کوئی شئے بھی ہمارے احاطہ بصارت سے باہر نہیں ہے۔ یہی کمزوری اور غرور ہمارے خوابوں کی بنیاد ہیں۔ ناصرف انفرادی سطح پر بلکہ اجتماعی سطح پر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ انفرادی سطح پر ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں اور اجتماعی سطح پر اس فتح کا جشن مناتے ہیں۔ بہت کوشش کرتاہو ںکہ فضول باتیں میرے منہ سے نہ نکلیں ۔ پھر چہرہ ہی کیا ۔ ہماری اور کون سی مِلک ہے جو ہمارے اختیار میںہے؟ ہمارے ناخن اور بال تک تو ہمارے اختیار میںنہیں جو بغیر پوچھے بڑھتے رہتے ہیں ۔ شاید اسلئے ہمارے ہیںکہ ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔یہی حال ہمارے دل کا ہے جو بغیر پوچھے دھڑکتا رہتاہے ۔ دماغ کا ہے کہ بغیر اجازت لئے سوچتا رہتا ہے۔ ان کانوں کا ہے جو بلاوجہ ہر بات سنتے رہتے ہیں۔ یہی حال ان آنکھوںکا ہے جو ہر تھرکتی ہوئی چیز کو مسلسل تکتے چلی جاتی ہیںاور تھکنے کا نام ہی نہیں لیتیں ۔ بالکل پوچھے بغیر اورپھر بھی ہم نازاں ہیںکہ یہ آنکھیں ہماری ہیں۔ ہمارے رونگٹے ہمارے مرضی کے آنکھیںجب بند ہوجائیں تو خواب دکھلاتی ہیں۔ وہ خواب بھی پھر خیر سے ہمارے خواب کہلاتے ہیں ۔ اُن کی تعبیر ہماری تعبیر ہوتی ہے۔ ان سے منسلک خوشیاںاورغم ہماری خوشیاں اور غم بن جاتے ہیں۔ ان سب باتوں پر حیرت ہوتی ہے دل کرتاہے کُھل کر ہنسا جائے۔ جس کا کوئی دوست نہیں جس کے اردگرد سارے کیدو ہیں ۔ وہ سونا چاہتا ہے لیکن دن بھر کا درد اُسے سونے نہیں دیتا ۔ آدمی کی خواہش ہے کہ وہ خواب دیکھے۔ وہ اپنے خوابوںمیں خود کو مطمئن دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ دوسرے آدمی کو بھی اپنی طرح کا آدمی دیکھناچاہتا ہے۔ وہ سورج کے ہوتے ہوئے تاریکی دیکھ دیکھ کر تنگ آگیا ہے ۔وہ ہر طرف سے مایوس ہے اور اسکی آخری امید اسکے خواب ہیں کیونکہ اسے اپنے خوابوں کے طفیل ہی پتہ چلتا ہے کہ دن کے اُجالے میںوہ خودبھی ایک بھیڑیا بن جاتا ہے اور خواب میں دوبارہ انسان بن جاتاہے۔ اس کے خوابوں نے اس پریہ انکشاف بھی کیاہے کہ دن والے سارے بھیڑئیے خوابوں میںانسان بن جاتے ہیں۔ کیونکہ خوابوںمیںجہنم عبور ہوجاتی ہے۔ لوٹ مار کا مال غنیمت غائب ہوجاتاہے ۔جائیداد ختم ہوجاتی ہیں۔ بندوقیں اور چاقو چھریاں نہ جانے کس طرح اچانک چادریں اور چھتریاں بن جاتی ہیںاور سروں کو تن سے جدا کرنے کی بجائے تن من اور دھن کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ سب بچے اپنے بچے لگتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے والے ساتھی ۔ بوڑھے اپنے بزرگ بن جاتے ہیں۔ شاید ہمارے خوابوں کے یہی تضادات انھیں پُر معنی بنادیتے ہیں۔ یہ تضادات کوئی جدلیاتی تضادات نہیں ہیں بلکہ فطری تضادات ہیں ۔جو بظاہر انسانی شخصیت کی نئی نئی صورتوں کو بار بار جنم دیتے ہیں۔ اس سے آدمی بڑا ہوتا رہتاہے ۔ یہ صورتیں بہرحال پہلے سے بہتر صورتیں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دھرتی پر زندگی کو خوب سے خوب ترکرنے میںخواب نہایت فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔محاورہ مشہور ہے ’’بلی کے خواب میںچھیچھڑے‘‘ یعنی ساری بلیاں ایک ہی خواب دیکھتی ہیں۔ اسی طرح جب بہت سارے لوگ ہر طرح سے ایک طرح کے ہوجائیں تو وہ خواب بھی ایک ہی طرح کے دیکھتے ہیں۔ بات کوئی زیادہ گہری نہیںہے ۔ اب ہم لوگ جو خواب دیکھنے لگے ہیں وہ سارے کے سارے ایک ہی نوعیت کے خواب ہیں۔ یہی خواب اب ہمارے اتحادکی علامت بن گئے ہیں۔ خوابوںکی اس یکسانیت نے ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم جڑجائیں ۔ایک ہوجائیں اوپر سے نیچے تک ایک ہوجائیں۔ اندر سے باہر تک ایک ہوجائیں اور آگے سے پیچھے تک ایک ہوجائیں ۔ صرف اور صرف ایک ہوجائیں کیونکہ ہم پیداہی ایک اکائی کی حیثیت سے ہوئے تھے۔ یعنی ایک پاکستانی کی حیثیت سے جو بالکل واضح او ر اپنی پہچان آپ کی حیثیت سے ایک ہی شخصیت ہے ۔ہمارے درمیان جو فرق ہے وہ ایک ناہونے کا نہیں بلکہ ایک ہونے کے بعد کا فرق ہے۔ یعنی ہماری ایک شخصیت کے مختلف پہلوئوں کافرق ہے ۔یہ تعریف کا نہیں بلکہ تعارف کا فرق ہے اور تعارف کا فرق شخصیت کے اتحاد کو منتشر نہیں بلکہ استوار کرتاہے۔ اگر یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے تو ہمارے خوابوں کی یکسانیت بھی ہماری سمجھ آجائے گی۔ پھرہمارے خواب ہمارا منشور بن جائیں گے۔ جب خواب منشور بن جائیں تو وہ خواب کی تعبیر کہلاتے ہیں ۔ہم نے1930میں ایک خواب دیکھا تھا جسے ہم نے 1940میں منشور بنا لیا اور 1947میں تعبیر پالی ۔اب جو خواب ہم دیکھ رہے ہیں اسے منشور بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ پھر سے ایک ہونے کا یہی طریقہ اب رہ گیا اس کے بعد ہم ایک بھر پور قوت کی حیثیت سے رزق کے گرجتے ہوئے بادلوں کو برسنے پرمجبور کردیں گے ۔پہاڑوں کے اندر گھس جائیں گے ۔زمین کوتہہ و بالا کردیں گے ۔ آسمانوں کوچیر جائیں گے ۔ تاریکیوں کو پسپا کرکے اجالے پھیلادیں گے پھر ایک آدمی کی قوت چوبیس کروڑ لوگوںکی قوت بن جائے گی۔ جب ایک آدمی کی قوت 24کروڑ لوگوں کی قوت بن جائے تو زندگی مجازی نہیں حقیقی بن جاتی ہے، مسلمان جانتا ہے کہ حقیقی زندگی ایک رات کے اندر اندر دنیا بھر کو سوتا چھوڑکر کائنات کے واحداور لاشریک مالک کے بالمقابل جا بیٹھتی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ ’’اُسؐ حقیقی زندگی ‘‘ کو جان سے زیادہ پیارا سمجھنے والے نوے فیصد سے زیادہ پاکستانی مسلمان ،اگر ایک بار کمر بستہ ہوجائیں تو دن کے اجالے میںکیا کچھ نہیں کرسکیں گے؟ چھہتر سالوں کے بعد قدرت پاکستانیوں کو 8 فروری 2024کے عام انتخابات کا ایک ایسا موقع فراہم کرنے پر آمادہ ہوگئی ہے جو اُن کے خوابوں کو منشور کی صورت عطا کر سکتا ہے ۔ پاکستانیوں کو توبہ واستغفار کرتے ہوئے اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہے۔ اپنی ناک سے آگے نہ دیکھنے کی عادت کو ایک طرف رکھتے ہوئے 8 فروری کو انتخابات کے دن سارے اندرونی اور بیرونی دشمنوںکو پہلے حیران اور پھر پریشان کردینا چاہیے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پاکستانیوں کو اُن کے خواب کی تعبیر مل جائیگی ہے ۔ اگر خدا نخواستہ ایسا نہ ہوسکا تو پھر پاکستانی کوئی خواب دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے ۔ جب خواب ہی نہ دیکھیں گے تو تعبیر کیسی؟ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو ۔آمین۔
QOSHE - خواب اور تعبیر - موسیٰ رضا آفندی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

خواب اور تعبیر

17 0
23.12.2023




خوابوں کاہماری زندگی سے بڑاگہرا تعلق ہے اس تعلق سے انکار ہرگز ممکن نہیں کیونکہ ہمارے خواب ہی ہمیں بتلاتے ہیں کہ ابھی ہم نامکمل ہیں۔ ہمارا ارد گرد بھی نامکمل ہیں۔ اس لئے ہم اپنا چہرہ نہیں دیکھ سکتے ۔ہماری آنکھیںدل اور دماغ نہیں دیکھ سکتیں۔ اسکے باوجود مغرور ہیں کہ کوئی شئے بھی ہمارے احاطہ بصارت سے باہر نہیں ہے۔ یہی کمزوری اور غرور ہمارے خوابوں کی بنیاد ہیں۔ ناصرف انفرادی سطح پر بلکہ اجتماعی سطح پر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ انفرادی سطح پر ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں اور اجتماعی سطح پر اس فتح کا جشن مناتے ہیں۔ بہت کوشش کرتاہو ںکہ فضول باتیں میرے منہ سے نہ نکلیں ۔ پھر چہرہ ہی کیا ۔ ہماری اور کون سی مِلک ہے جو ہمارے اختیار میںہے؟ ہمارے ناخن اور بال تک تو ہمارے اختیار میںنہیں جو بغیر پوچھے بڑھتے رہتے ہیں ۔ شاید اسلئے ہمارے ہیںکہ ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔یہی حال ہمارے دل کا ہے جو بغیر پوچھے دھڑکتا رہتاہے ۔ دماغ کا ہے کہ بغیر اجازت لئے سوچتا رہتا ہے۔ ان کانوں کا ہے جو بلاوجہ ہر بات سنتے رہتے ہیں۔ یہی حال ان آنکھوںکا ہے جو ہر تھرکتی ہوئی چیز کو مسلسل تکتے چلی جاتی ہیںاور تھکنے کا نام ہی نہیں لیتیں ۔ بالکل پوچھے بغیر اورپھر بھی ہم نازاں ہیںکہ یہ آنکھیں ہماری ہیں۔ ہمارے رونگٹے ہمارے مرضی کے آنکھیںجب بند ہوجائیں تو خواب دکھلاتی ہیں۔ وہ خواب بھی پھر خیر سے ہمارے خواب کہلاتے ہیں ۔ اُن کی تعبیر ہماری تعبیر ہوتی ہے۔ ان سے منسلک خوشیاںاورغم ہماری خوشیاں اور غم بن جاتے ہیں۔ ان سب........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play