پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستانی دوسرے کھیلوں میںنام نہیںکماتے ۔ پاکستان کے عظیم لو گ ثابت کر چکے ہیں وہ کرکٹ ،سنوکر ، سکواش ، کشتی دنگل ، کبڈی ، شطرنج اور پولو اور اب نیزہ بازی میں بھی اپنا لوہا منوانے کے قابل ہیں ۔ پاکستانی فٹ بال دنیا بھر کے میچوں کااٹوٹ انگ ہوتاہے۔ اس کے باوجود اکثر پاکستانیوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جس چیز میںبھی ہوا بھر جائے اسے ٹھوکریں ہی ملتی ہیں۔ آج ہم صرف اپنے قومی کھیل یعنی ہاکی پرہی بات کریں گے کیونکہ پاکستانی قوم کی طرح پاکستان کی ہاکی نے بھی عروج وزوال کی ایک عبرتناک داستان ہے ۔ شروع شروع میںہاکی کو برصغیر میں برطانوی باشندوںنے متعارف کرایا تھا جو روزگار اور ملازمت کے لئے ہندوستان آئے تھے۔ ہاکی بعد میںمقامی لوگوں میںبھی کرکٹ کی طرح مقبول ہوگئی۔1947 میں آزادی کے بعد فوراً ہی 1948میںپاکستان ہاکی فیڈیشن معرض وجود میں آگئی ۔ جس طرح آج کرکٹ نے قوم کو جوڑے رکھا ہے اسی طرح گذشتہ صدی کی ساٹھ سے لئے کر نوے تک کی دہائیوں میںہاکی نے ملک او رقوم جوڑرکھا تھا۔ پاکستان ہاکی کے بین الااقوامی افق پرایک چمکتا ستارہ تھا جو آہستہ آہستہ معدوم ہوتا چلاگیا ۔ مجھے یا د ہے جب سرکاری ملازمت میںآنے کے بعد میری پوسٹنگ اس وقت کی وزارت ثقافت ، سپوڑٹس اور نوجوانان کے امورمیں ہوئی تو ملازمت کا آغاز میں نے سیکشن افیسر (منصوبہ بندی) کی حیثیت سے کیا اور پاکستان سپوڑٹس بورڈ کی وزارتی سطح پر نگرانی کرنے لگا ۔ اُس وقت اسپوڑٹس بورڈ کے ڈی جی بریگیڈئر حمیدی ہوتے تھے جو ہاکی کے کے کھیل کی ترقی کے لئے لاہور اورکراچی کے ہاکی گرائونڈ میںآسٹروٹرف لگانے کے لئے کوشاں تھے اُن کے منصوبے کوعملی جامع پہناتے ہوئے جب ٹرف بچھادی گئی تو اس کے بعد ہاکی کا جو میچ بھی ان ٹرفوں پر کھیلا گیا مجھے لگتاتھا گویا میںخود وہ میچ کھیل رہاہوں ۔ اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش پرمیں لاہور سے ہزار کلومیٹر دُور ہاکی ٹرف کے معائنے کے سلسلے میں کراچی میں تھا۔ پاکستان نے ہاکی کے ورلڈکپ میں گولڈ میڈل 1971،1978،1982،1994 اور سلور میڈل 1975اور 1990میں حاصل کئے ۔اولمپیکس میں پاکستان ہاکی نے گولڈ میڈل 1960،1968 اور 1984جبکہ سلور میڈل 1956،1964،1972اور بروبز میڈل 1976اور 1992میں حاصل کئے اور اس بعد ؎ تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا ہو یعنی اس کے بعد چراغوںمیںروشنی نہ رہی۔ ہاکی نظروں سے اوجھل ہوگئی اور اس کے پرستار کم ہوتے ہوتے اس قدر ناپید ہوگئے کہ آج لوگوں کو اجتماعی طور پر پتہ نہیں کہ اس وقت پاکستان کا قومی کھیل موجودہ ٹیم اور اس کی قیادت کے ساتھ مورخہ5دسمبر سے 16دسمبر تک ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں کھیلا جارہا ہے۔ جہاں منعقد ہونے والے جونیئر ہاکی ورلڈکپ میں ہماری ہاکی ایک طویل خواب غفلت کے بعد انگڑائی لے رہی ہے ۔وہ عرصہ دراز کے بعد کوارٹر فائنل میں پہنچ گئی ہے ۔ پاکستان کے عالمی سطح پر ہاکی کے میروڈناکی حیثیت سے جانے اور پہنچانے جانے والے شہباز احمد سنیئرتھے ۔پھر گولڈن بوائے کے نام سے مشہور زمانہ مرحوم منظور حسین ہیں جبکہ سمیع اللہ کا لقب اڑتا ہوا گھوڑا رکھا گیا تھا ۔ ’’سمیع اللہ سے کلیم اللہ اور کلیم اللہ سے سمیع اللہ ‘‘ محاورے کی صورت اختیار کرچکا تھا، ہاکی سے یہی توشکوہ ہے کہ ؎ تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے پھر یہ ہوا کہ پاکستان ہاکی کے میدان میںاس قدر پیچھے رہ گیاکہ 2014 میں ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی ہی نہ کرسکا ۔ ہاکی کے زوال کی وجوہا ت پر بہت سارے تجزئیے کئے گئے ہیںجن میں سرفہرست حکومتی سرپرستی کا فقدان ہے جس نے کرکٹ کے مقابلے میںہاکی کے ساتھ سوتیلی ماںکاسلو ک رکھاہو ا ہے ۔ساری توجہ کرکٹ پردی گئی اگر اسکی پچاس فیصدبھی ہاکی پردی جاتی تو ہاکی کے میدان میں پاکستان اپنا مقام کبھی نہ کھوتا۔ پہلے صوبائی حکومتوں کوہاکی سے دُور کیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کھیلوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے سارے ادارے اورکارپوریشنیںہاکی سے دُور ہوتی چلی گئیں۔ ہاکی یتیم ہوگئی۔ عمیق ترین پستیوں کو چھولینے کے بعد جس ہاکی ٹیم نے آغاز کرکے کوراٹرفائنل میںجگہ بنا کر دوبارہ ابھرنا شروع کیا ہے ان کا تعارف کرانا ضروری سمجھتا ہوں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی صدارت اس وقت بریگیڈئیر (ر) خالد سجاد کھوکھر کررہے ہیں جو گذشتہ تیس سالوں سے ہاکی کے ساتھ کسی ناکسی نسبت سے منسلک رہے ہیں اس وقت مردوں کی جونیئر ورلڈکپ میں حصہ لینے والی ٹیم کے ارکان میں آصف ناز کھوکھر ،ٹیم مینجر ، روٹلنٹ اوتمانز ، ہیڈکوچ ، شکیل عباسی ، کوچ ، محمد علی، اسٹنٹ مینجر ، آصف خان، کوچ، فیزیو تھیراپسٹ ڈاکٹر، طارق طاہر ، میجر (ر) جاوید اختر خان منجھ ،ڈائریکٹر ایڈمن اور ویڈیو اینا لسٹ ندیم لودھی شامل ہیںجبکہ پاکستانی اسکواڈعلی رضا (گول کیپر) ارباز احمد، سفیان خان ، غضنفر، مرتظیٰ یعقوب، ذکریا حیات ، ارشد لیاقت، عبدالرحمان ، حنان شاہد، ابوذر، عبدلرافع ،عبدالمنان ، ایم احمد ،احتشام ، عقیل احمد، علی مرتظیٰ ، عمر مصطفیٰ ، عبدالقیوم ، اور بشارت علی شامل ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانیوں کی اکثریت ا ن کھلاڑیوں کے ناموں سے واقف نہیں ہے ۔ ہاکی کی سلیکشن کمیٹی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اس وقت اولیمپئن آصف باجوہ چیف سلیکٹرہیں جبکہ اولپمینز ذیشان اشرف ، انجم سعید اور کامران اشرف ممبران ہیں۔ ایک یونیورسٹی کے ایک تجزئیے کے مطابق پاکستان ہاکی کی بحالی کے لئے جن انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے اُن میں سے سرفہرست کرکٹ کی طرح پاکستان ہاکی سوپر لیگ بنانے کی ضرورت ہے جس سے ایک طرف ہاکی کو سپانسرز کی صورت میںسرمایہ کار ملیں گے اور دوسری طرف اسکولوں ،کالجوں اور صوبائی سطح سے مسلسل ٹیلنٹ ملنا شروع ہوجائیں گے ۔ اس سے ہاکی کے کھلاڑیوں کو مالی آسودگی حاصل ہوگی جس سے خالی پیٹ کھیلنے والی ٹیم کے ولولے اور جذبے میںرنگ دکھانے والا بے پناہ اضافہ ہوگا۔ غیر ملکی کوچیز جدید ترین تکنیکی دائو پیچ سے ٹیم کو لیس کریں گے تو بین الاقوامی مقابلے آسان ہوں گے ۔یہ کام صرف اور صرف ٹیم کی دیدہ ور ،پرخلوص اور ذاتی بغض و عناد سے پاک قیادت ہی کرسکتی ہے۔ بریگیڈئیر (ر) خالد سجاد کھوکھرکی شکل میں ٹیم کو وہ قیادت میسر ہے جس نے تمام ترالزام تراشیوں کے باوجود صرف ہاکی کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے بوگس الزامات کے برعکس اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے بہت سارے موقعوں پرہاکی کو تباہی سے بچایا ۔ انہوں نے ہاکی کو انیس سالوں کے بعد کوارٹر فائنل میں پہنچا کر پاکستان ہاکی پر جو احسان کیا ہے ۔ اس کا صلہ اُس کو ملنا چاہے اور انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جانا چاہیے وزیراعظم پاکستان بھی ان کی کارکردگی سے بالمشافہ اور براہ راست آگاہی حاصل کرچکے ہیں۔ خدا ہمار ا حامی و ناصر ہو ۔ا ٓمین۔
QOSHE - پاکستان ہاکی کا عروج وزوال - موسیٰ رضا آفندی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

پاکستان ہاکی کا عروج وزوال

19 0
16.12.2023




پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستانی دوسرے کھیلوں میںنام نہیںکماتے ۔ پاکستان کے عظیم لو گ ثابت کر چکے ہیں وہ کرکٹ ،سنوکر ، سکواش ، کشتی دنگل ، کبڈی ، شطرنج اور پولو اور اب نیزہ بازی میں بھی اپنا لوہا منوانے کے قابل ہیں ۔ پاکستانی فٹ بال دنیا بھر کے میچوں کااٹوٹ انگ ہوتاہے۔ اس کے باوجود اکثر پاکستانیوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جس چیز میںبھی ہوا بھر جائے اسے ٹھوکریں ہی ملتی ہیں۔ آج ہم صرف اپنے قومی کھیل یعنی ہاکی پرہی بات کریں گے کیونکہ پاکستانی قوم کی طرح پاکستان کی ہاکی نے بھی عروج وزوال کی ایک عبرتناک داستان ہے ۔ شروع شروع میںہاکی کو برصغیر میں برطانوی باشندوںنے متعارف کرایا تھا جو روزگار اور ملازمت کے لئے ہندوستان آئے تھے۔ ہاکی بعد میںمقامی لوگوں میںبھی کرکٹ کی طرح مقبول ہوگئی۔1947 میں آزادی کے بعد فوراً ہی 1948میںپاکستان ہاکی فیڈیشن معرض وجود میں آگئی ۔ جس طرح آج کرکٹ نے قوم کو جوڑے رکھا ہے اسی طرح گذشتہ صدی کی ساٹھ سے لئے کر نوے تک کی دہائیوں میںہاکی نے ملک او رقوم جوڑرکھا تھا۔ پاکستان ہاکی کے بین الااقوامی افق پرایک چمکتا ستارہ تھا جو آہستہ آہستہ معدوم ہوتا چلاگیا ۔ مجھے یا د ہے جب سرکاری ملازمت میںآنے کے بعد میری پوسٹنگ اس وقت کی وزارت ثقافت ، سپوڑٹس اور نوجوانان کے امورمیں ہوئی تو ملازمت کا آغاز میں نے سیکشن افیسر (منصوبہ بندی) کی حیثیت سے کیا اور پاکستان سپوڑٹس بورڈ کی وزارتی سطح پر نگرانی کرنے لگا ۔ اُس وقت اسپوڑٹس بورڈ کے ڈی جی بریگیڈئر حمیدی ہوتے تھے جو ہاکی کے کے کھیل کی ترقی کے لئے لاہور اورکراچی کے ہاکی........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play