بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ اور غیر منصفانہ فیصلے پر لکھنے کے لئے نکات ترتیب دے رہا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی خبر ملی۔یقین کریں ساری ترتیب یوا ہو گئی۔پاکستان کا دشمن یہی چاہتا ہے کہ اس پر ہونے والی تنقید کا رخ تبدیل ہو جائے۔فوجی جوانوں کی شہادتوں کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرنا مشکل ہو گا لیکن میں نے طے کیا ہے کہ اس صدمے کو ابھی ایک طرف رکھ کر بھارتی سپریم کورٹ میں انصاف کا جو قتل ہوا اس پر کچھ کہا جائے۔ پاکستان نے واضح طور پر بھارتی سپریم کورٹ کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت سے متعلق فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔پاکستان نے سرکاری طور پر کہا ہے کہ اس فیصلے سے کشمیر کی متنازع حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے جو سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جانا ہے۔ بھارت کو کشمیری عوام اور پاکستان کی مرضی کے خلاف اس متنازع علاقے کی حیثیت سے متعلق یکطرفہ فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔پاکستان جموں و کشمیر پر بھارتی آئین کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ کوئی بھی عمل، جو بھارتی آئین کے تابع ہے، کوئی قانونی اہمیت نہیں رکھتا۔بھارت اپنی قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کے بہانے بین الاقوامی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ مقبوضہ کشمیر کو اپنے علاقے میں مدغم کرنے کے اس کے منصوبے آخر ناکام ہوں گے۔5 اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کی عدالتی توثیق مسخ شدہ تاریخی اور قانونی دلائل پر مبنی انصاف کا دھوکہ ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ جموں و کشمیر کے تنازع کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع نوعیت کو تسلیم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ کشمیری عوام کی امنگوں اور مطالبات کا ادراک کرنے میں ناکام ہے،بھارتی سپریم کورٹ یہ جان نہیں سکی کہ کشمیری عوام پہلے ہی 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کر چکے ہیں۔مقبوضہکشمیر کی خصوصی خود مختار حیثیت کو منسوخ کرنے کے فیصلے پر بھارتی حزب اختلاف نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔پاکستان اور کشمیری باشندے سمجھتے ہیں کہ بی جے پی کی طرح کانگرس بھی کشمیریوں پر مظالم کی ذمہ دار ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے کشمیر میں سڑکوں پر بڑی تعداد میں فوجی موجودگی اور ریاست بھر میں مواصلاتی لاک ڈاؤن کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے لوگوں کی آواز دبائی جارہی ہے ،وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کے متعلق جو صدا بلند کرنا چاہتے ہیں انہیں جابرانہ ہتھکنڈوں سے خاموش کرایا جا رہا ہے ۔ اب تک کے تمام اشارے یہ بتارہے ہیں کہ اس اقدام کو کشمیری عوام کے غصے اور نفرت کا سامنا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھارتی آئین میں شامل کشمیر کی خصوصی حیثیت کا تحفظ کرنے والے آرٹیکل 370کے خلاف اعتراضات کو مسترد کرنے کے ساتھ آرٹیکل 35 اے کے خلاف درخواستوں کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ بھارت میں بہت سے ایسے انتہا پسند ہیں جو آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں ۔جنونی ہندو کہہ رہے ہیں کہ کشمیر بہت سے بھارتیوںکے لیے ایک حساس اور اہم مسئلہ ہے اور وہ اسے اپنی قومی شناخت اور فخر کا بنیادی حصہ سمجھتے ہیں۔دراصل ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے طویل عرصے سے شق 370 کی مخالفت کا اعلان کر رکھا تھا ۔اس شق کو منسوخ کرنا اس کے 2019 کے انتخابی منشور کا حصہ تھا۔آئین کا آرٹیکل 35A مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کو ریاست کے "مستقل باشندوں" کی وضاحت کرنے کی اجازت دیتا ہے اور یہ طے کرنے کا اختیار دیتا ہے کہ کون کشمیر کے وسائل سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس شق کا اطلاق جموں اور لداخ سمیت تمام مقبوضہکشمیر پر ہوتا ہے۔تمام شناخت شدہ باشندوں کو مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، جو انہیں ملازمت، سکالرشپ اور دیگر مراعات سے متعلق خصوصی فوائد کا حقدار بناتا ہے۔ لیکن مستقل رہائشیوں کے لیے سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ریاست میں صرف ان کے پاس ملکیت کا حق ہے اور صرف وہی جائیداد خرید سکتے ہیں۔اس شق کے خاتمے کا مطلب اب یہ ہو گا کہ بی جے پی اپنے غنڈوں اور سابق فوجیوں کو کشمیر میں آباد کرنے کا کام بلا روک ٹوک کر سکتی ہے۔ مسئلہ کشمیر آج دنیا کا سب سے قدیم حل طلب تنازع بن چکا ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ اسے اپنا بنیادی تنازع سمجھتا ہے۔ عالمی برادری بھی پاکستان اور بھارت کے ساتھ کشمیری باشندوں کو اس تنازع کے فریق سمجھتی ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت کو تبدیل کرنے کی مجاز قوت نہیں رکھتا ۔ 1947 میں ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کا جبری قبضہ اس تنازع کی بنیادی وجہ ہے۔جموں و کشمیر میں قیام امن ممکن ہو تو وادی کشمیر میں تشدد کی روک تھام اور پاک بھارت دشمنی میں کمی آسکتی ہے۔ روس، امریکہ اور چین جیسے کئی ممالک نے بھی خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کا کردار ادا کیا ہے لیکن یہ کردار فیصلہ کن حل کی جانب پیشقدمی سے محروم نظر آتا ہے۔وجہ یہی ہے کہ بھارت عالمی قوانین کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ کشمیر پر پاکستان کا دعویٰ بنیادی طور پر خطے کی مسلم اکثریتی آبادی کی خواہشات سے ہم آہنگ ہے، اس علاقے کو جغرافیائی، مذہبی اور معاشی مفادات ایک ہونے کی وجہ سے پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے ۔ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے؟اقوام متحدہ کی قرارداد 47 (1948) میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے بھارتاور پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوال کا فیصلہ "آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقہ کار کے ذریعے" کیا جانا چاہیے۔بھارت اقوام متحدہ کی قرارداد اور عالمی قوانین کو ایک طرف رکھ کر کٹھ پتلی سپریم کورٹ سے کشمیریوں کو دبانے کا اختیار مانگ کر انصاف کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔
QOSHE - کشمیر کا مقدمہ اور کٹھ پتلی بھارتی سپریم کورٹ - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کشمیر کا مقدمہ اور کٹھ پتلی بھارتی سپریم کورٹ

9 0
14.12.2023




بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ اور غیر منصفانہ فیصلے پر لکھنے کے لئے نکات ترتیب دے رہا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی خبر ملی۔یقین کریں ساری ترتیب یوا ہو گئی۔پاکستان کا دشمن یہی چاہتا ہے کہ اس پر ہونے والی تنقید کا رخ تبدیل ہو جائے۔فوجی جوانوں کی شہادتوں کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرنا مشکل ہو گا لیکن میں نے طے کیا ہے کہ اس صدمے کو ابھی ایک طرف رکھ کر بھارتی سپریم کورٹ میں انصاف کا جو قتل ہوا اس پر کچھ کہا جائے۔ پاکستان نے واضح طور پر بھارتی سپریم کورٹ کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت سے متعلق فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔پاکستان نے سرکاری طور پر کہا ہے کہ اس فیصلے سے کشمیر کی متنازع حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے جو سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جانا ہے۔ بھارت کو کشمیری عوام اور پاکستان کی مرضی کے خلاف اس متنازع علاقے کی حیثیت سے متعلق یکطرفہ فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔پاکستان جموں و کشمیر پر بھارتی آئین کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ کوئی بھی عمل، جو بھارتی آئین کے تابع ہے، کوئی قانونی اہمیت نہیں........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play