ہر وہ شخص جو کسی بھی قسم کی ملازمت میںہو اُسے ایک دن ریٹائر ہونا پڑتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کا دوسرا نام پیشہ وارانہ موت ہے ۔ ملازمت استاد بھی کرتا ہے ۔ڈاکٹر، انجینئر وکیل ،صحافی ،شاعروادیب ، مصور اور سنگتراش ، صداکار اور اداکار ،مزدور اور کسان حتیٰ کہ مساجد کے امام بھی ملازمت کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنی ملازمت کی مدت پوری ہونے کے بعد ملازمت سے ریٹائر ضرور ہوتے ہیں لیکن اپنے پیشے ،ہنر اور فن سے مرتے دم تک ریٹائر نہیں ہوتے ۔وہی بدنصیب شخص ریٹائر ہوتا ہے جس نے ملازمت ہی پیشہ بنایا ہو ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف اعلیٰ افسران پرمشتمل کھیپ ہی ’’نوکر شاہی ‘‘کہلاتی ہے بلکہ اس ملک میں استثنا کے ساتھ نچلے درجے کے سرکاری ملازم بھی اس کی بربادیوں کا اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا کہ کوئی افسر ۔ میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے دوچار بڑے بڑے نامی گرامی ریٹائر اعلیٰ آفسران کو سیکشن آفیسر کے کمرے کے باہراسٹنٹ کے کمرے میں اچھے بچوں کی طرح باادب سے انتظار کرتے دیکھا ہے ۔ یہ قدرت کی طرف سے اُن مظالم او ر زیادتیوں کی وہ سزا ہے جو عمر بھر ایسے افسر لوگوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں ۔ ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی دوسوسالہ حکومت نے برصغیر کے لوگوں اور نوابوں پر بھی فیصلہ کن اثرات مرتب کئے اور غلامی اُنکی زندگی کی نس نس میں داخل کردی ۔ اس غلامانہ ذہنیت نے اردو شاعری میںاس طرح رنگ دکھائے۔ کھیلو گے کو دو گے ہوگے خراب لکھو گے پڑھوگے بنو گے نواب اس تاریخی پس منظر میں جب انڈین سول سروسز کا آغاز ہوا تو مورثی ذریعوں کے علاوہ برطانوی سامراج کی اس چال نے ہندوستانی معاشرے کو اس طرح بے بس ، لاچار اور ذہنی پسماندگی کا شاہکار بنادیا کہ جس کے منفی اثرات نے غلام ہندوستان کے سیاسی ، قانونی ،عدالتی اور تعلیمی اداروں کو اپنی گرفت میںلے لیا ۔یہیں سے علم وآگہی اور آزاد سوچ وفکر پر ہٹوبچو والے کروفر نے اپنے پنجے سختی سے گاڑ دئیے ۔راج کا افسر ’’نوکر شاہی ‘‘ اور چھوٹا ملازم ’’کلرک بادشاہ ‘‘ بن گیا ۔ہندوستان کی سول سروسز کو علم، غیرجانبداری اورمہارت کی وہ بالا دستی حاصل تھی کہ جس نے ایک طرف راج کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا اور دوسری طرف حق ،انصاف اور غیر جانبدار کا بول بالا کرکے قبولیت عامہ بھی حا صل کی ۔ا افسر نے پروفیسر پر برتری حاصل کرلی اور بڑھتے بڑھتے زندگی کے ہر پہلوں پر چھا گیا ۔ پروفیسر کی بیٹی کو اس لئے رشتہ نہیں ملتا کہ وہ لائق نہیں ہوتا کیونکہ اگر لائق ہوتا تو افسر ہوتا ۔ اسی لئے ہر اچھے پروفیسر ، ڈاکٹر اور انجینئر نے افسر بننا شروع کردیا ۔ہمیں چونکہ انگریزوں سے آزادی ملی تھی اور مغربی لوگ دشمن کو قتل کرنے کی بجائے اس کی طبیعت بدل دیتے ہیں۔ اس لئے جاتے جاتے انگریز آقا اپنے کالے غلاموں کی طبیعت کچھ اس طرح بدل گیا کہ مقامی مرد کو عورت تو نہ بناسکالیکن اُسے مرد بھی نہ رہنے دیا ۔ جو کرسیاں انگریزوں نے شہر شہر،قریہ قریہ خالی چھوڑی تھیں اُن پر گندی گلیوںاور تاریک محلوں سے نکلے ہوئے کالے انگریزوں نے اجلے اجلے سفید اور بے داغ کپڑے پہن کر قبضہ جمالیا ۔انگریز جب کا لا ہو اور غلام بھی ہو اور پھر اس حالت میں کرسی پر بیٹھ بھی جائے تو پھر وہ صرف منڈی لگاتا جہاں سودا ہوتا ہے۔ یہ لوگ سودا بڑی ایمانداری سے کرتے ہیں ، یعنی نماز پڑھنے روزے رکھنے ، زکواۃ ادا کرنے، کئی کئی حج اور عمرے ادا کرنے کے بعد بھی ہر چیز بیچنے لگتے ہیں۔ ضرورتمندوں کو ان کے حصول میںکوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ ۔یہی وجہ ہے کہ ہم کمیونزم کے سخت خلاف ہیں کیونکہ ہم نے ’’کمین ازم ‘‘ کو اپنا رکھا ہے۔ہم لوگ اُسی لیڈر کو پسند کرتے ہیں جو اچھی انگریزی بولے جو سمجھ سے باہر ہو۔اُردو بولنے والے لیڈرکو لوگ اپنی طرح گھٹیا سمجھتے ہیں۔ ہم اردو میں ایم اے پاس کو بی اے تک ہی تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں اس سے زیادہ باعث عزت سمجھنا اپنے سابقہ آقائوں سے غداری کے مترادف ہوگا۔ ہماری یہ سوچ ، خود غرضی ،ظلم وبربریت ، اخلاقی گروٹ اور غلامانہ ذہنیت انگریزکی دی ہو ئی اُس سرکاری ملازمت سے وابستہ چکا چوند کا شاخسانہ ہے جسے ہم نے دل وجان سے اپنا رکھا ہے ۔سرکاری ملازمت نے ہمیں سیدھے راستے کی بجائے ہمیںشیطان رجیم کے رستے پر گامزن کررکھا ہے۔ اللہ کے راستے پرایمان رکھنے کے باوجود ہمیں شیطان کا راستہ بھلا لگتاہے اور اسی دوغلے پن نے کسی ادنیٰ و اعلیٰ اعلیٰ سرکاری ملازم کو کسی قابل نہیںچھوڑا۔ اس کے باعث وہ اپنے برائے نام مقام اورمرتبے کو بھی چھوڑ چکاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بڑے سے بڑے سرکاری افسر کی موت پرجن جن علاقوں پر اس نے بادشاہت کی ہوتی ہے وہاں سے کوئی بھی اس کے جنازے میں شریک ہونے نہیں آتا اور اسی لئے چند زندہ افسر اس ایک مردہ افسر کو سرکاری قبرستان میںدفنانے کے بعد اپنی حسین یادوں میں دفنائے بغیر روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں بقول انور مسعود روز و شب کے میلے میں غفلتوں کے مارے ہم کچھ یہی سمجھتے ہیں ہم نے جس کو دفنایا بس اسی کو مرنا تھا سارے افسر لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن وہ جو کہتے ہیں سوکھی لکڑیوں کے ساتھ گیلی بھی جل جاتی ہیں اسلئے چنداچھے افسروں کاوجود کوئی معنی نہیں رکھتا۔ معاشرہ اپنے اکثر یتی طور طریقوں ،معیاروں ،کسوٹیوں اور پیمانوں سے پہچانا جاتاہے۔ان سب کو درست، استوار اور پائیدار رکھنے کے لئے جس نہایت چاک وچوبند ،صاف شفاف، انتہائی دیانتدار، انصاف پسند اور ایماندار اصولوں پرمبنی انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ گذشتہ کئی دہائیوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کبھی نصیب نہیں ہوا۔ ایسی انتظامیہ کومتعارف کرانے کے لئے اجتماعی یکجہتی ، مشترکہ کاوشیں اور قومی سطح پر متحد ہ جدوجہد درکار ہے جو ابھی تک تو ناپید ہے لیکن اس کے امکانا ت روشن ہیں کیونکہ پاکستان کے ہر ادارے میںعزت دار ، پرخلوص ، ایماندار لائق وفائق، قابل اور باصلاحیت خواتین وحضرات کی اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی کوئی کمی نہیں۔ جس دن پاکستان کے سرکاری ملازم کو اس احساس کے ساتھ ساتھ یقین بھی ہوگیا کہ وہ پاکستان کے 25کڑور لوگوں کا اجتماع کا ملازم ہے تو اس کی عزت بھی بحال ہوجائے گی اورپاکستانی سرکار کا ہر ادنیٰ اور اعلیٰ ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی موت تک عزت اور احترام کے ساتھ زندہ بھی رہ سکے گا۔ سرکاری ملازمت کا مطلب اپنی بیوی اور بچوںکی خدمت نہیں،لوگوں کی خدمت کرناہے جو اعلیٰ افسران اور ادنیٰ ملازمین دونوں کو پالتے ہیں ۔ اس بات کا احساس ہی ریٹائرمنٹ کے المیہ کو ختم کرسکتاہے۔
QOSHE - ریٹائرمنٹ کے بعد - موسیٰ رضا آفندی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ریٹائرمنٹ کے بعد

12 0
09.12.2023




ہر وہ شخص جو کسی بھی قسم کی ملازمت میںہو اُسے ایک دن ریٹائر ہونا پڑتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کا دوسرا نام پیشہ وارانہ موت ہے ۔ ملازمت استاد بھی کرتا ہے ۔ڈاکٹر، انجینئر وکیل ،صحافی ،شاعروادیب ، مصور اور سنگتراش ، صداکار اور اداکار ،مزدور اور کسان حتیٰ کہ مساجد کے امام بھی ملازمت کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنی ملازمت کی مدت پوری ہونے کے بعد ملازمت سے ریٹائر ضرور ہوتے ہیں لیکن اپنے پیشے ،ہنر اور فن سے مرتے دم تک ریٹائر نہیں ہوتے ۔وہی بدنصیب شخص ریٹائر ہوتا ہے جس نے ملازمت ہی پیشہ بنایا ہو ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف اعلیٰ افسران پرمشتمل کھیپ ہی ’’نوکر شاہی ‘‘کہلاتی ہے بلکہ اس ملک میں استثنا کے ساتھ نچلے درجے کے سرکاری ملازم بھی اس کی بربادیوں کا اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا کہ کوئی افسر ۔ میں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے دوچار بڑے بڑے نامی گرامی ریٹائر اعلیٰ آفسران کو سیکشن آفیسر کے کمرے کے باہراسٹنٹ کے کمرے میں اچھے بچوں کی طرح باادب سے انتظار کرتے دیکھا ہے ۔ یہ قدرت کی طرف سے اُن مظالم او ر زیادتیوں کی وہ سزا ہے جو عمر بھر ایسے افسر لوگوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں ۔ ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی دوسوسالہ حکومت نے برصغیر کے لوگوں اور نوابوں پر بھی فیصلہ کن اثرات مرتب کئے اور غلامی اُنکی زندگی کی نس نس میں داخل کردی ۔ اس غلامانہ ذہنیت نے اردو شاعری میںاس طرح رنگ دکھائے۔ کھیلو گے کو دو گے ہوگے خراب لکھو گے پڑھوگے بنو گے نواب اس تاریخی پس منظر میں جب انڈین سول سروسز کا آغاز ہوا تو مورثی ذریعوں کے علاوہ برطانوی سامراج کی اس چال نے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play