گناہ وثواب سے ہم سب واقف ہیں ۔ اسی سے جنت اور دوزخ کا تصور وابستہ ہے۔جرم اور گناہ میں یہ فرق ہے کہ جرم حکومتی یا ریاستی قانون توڑنے کو کہتے ہیںاور گناہ دینی اور مذہبی احکامات کی نافرمانی کو کہتے ہیں۔ جرائم کی سزائوں کا تعلق آدمی کی زندگی تک محدود ہوتاہے جبکہ گناہوں کی سزائیںقیامت تک جاتی ہیں ۔دنیاوی قوانین چونکہ لوگ ہی بناتے ہیںاس لئے بنتے بگڑتے رہتے ہیں ۔ دینی قانون اللہ بناتاہے اسلئے ہمیشہ قائم رہتاہے۔ دنیاوی قوانین میں آئے دن ترمیم اورجمع تفریق ہوتی رہتی ہے جبکہ دینی قانون ہمیشہ اٹل اورنافذ رہتے ہیں۔ گناہوں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں جنہیں عموما ً کبیرہ اور صغیرہ میں متعارف کرایا گیا ہے ۔ صغیرہ گناہوں کی تکرار انھیں کبیرہ گناہ بنادیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہرنافرمانی گناہ کہلاتی ہے ۔ہم صغیرہ اور کبیرہ گناہوںکا ذکر اسلئے کرتے ہیں کیونکہ خوددین نے یہ تقسیم متعارف کرائی ہے۔ کبیرہ گناہ وہ ہوتے ہیںجن کی انجام دہی پرقرآن او ر حدیث میںدوزخ کی وعیدہے۔ سورۃ نسا ء کی آیت 31اورسورۃشوریٰ کی آیت37میں بعض کبیرہ گناہوںکا ذکر ہوا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کوئی کبیرہ گناہ کرے اوراس کے بعد اللہ سے توبہ کرے۔کبیرہ گناہوںکی تعداد 40تک بتلائی گئی ہے جن میں دیگر کے علاوہ شرک کرنا، اللہ کی رحمت سے مایوسی ، بے گناہ کا قتل کرنا، یتیم کامال کھانا ، میدان جہاد سے فرار ، ربایعنی سُود کھانا ، سحراور جادو ٹونے کا مرتکب ہونا، زنا کرنا تہمت لگانا، واجب زکواۃ ادا نہ کرنا ، شراب پینا ، وعدہ خلافی ، قطع رحمی ، چوری ، ناحق شہادت دینا ، جواء کھیلنا ، کتے سور یا اس جانور کا گوشت کھانا جو شرعی طریقے سے حلال نہ کیا گیا ہو، اور چھوٹے گناہوںپراصرار کرنا شامل ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ جرم اور گناہ میں کتنا فرق ہوتاہے۔کبیرہ گناہوںمیںکئی ایسے گناہ ہیںجو دنیا کے جرائم کی تعریف میںنہیں آتے لیکن دین کی نظر میں گناہ ہیں۔ گناہ اپنااثر چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسااثر جسے ماپا نہیں جاسکتا۔ ہر گناہ کے اثرات مختلف ہوتے ہیں جو مختلف لوگوںپر جدا جدا طریقوں سے مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اثرات گنتی کی حقیقتوں کی طرح اٹل ہوتے ہوئے بھی نظرنہیں آتے کیونکہ انھیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ صرف اللہ والے ہی جانتے ہیں کہ گناہوں کے کیا کیا اثرات کس کس طرح اور کن کن گناہ گاروں پر کیسے کیسے طریقوںسے مرتب ہوتے ہیں ۔ اس بات کا اشارہ دعائے کمیل میںحضرت علیؓ نے اس طرح کیا ہے ۔ ’’اے اللہ میرے وہ سب گناہ معاف کردے جو عذاب نازل ہونے کی وجہ بنتے ہیں، جو نعمتوںکوبدل کر انھیں آفت بنادیتے ہیں ،جو دعائیں قبول نہیںہونے دیتے ، جن کی وجہ سے رحمت کی امید ختم ہوجاتی ہے اور جو مصیبتیں نازل کراتے ہیں‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گناہوںکے اثرات کس حد تک گناہ گار کی زندگی برباد کرتے ہیںجبکہ گناہ گارکواِن گھمبیر اثرات کا شعور ہی نہیںہوپاتا ۔آج کل کے زمانے میںتواکثر مسلمانوں کو پتہ نہیںہی کہ کون کون سے بڑے بڑے گناہ وہ دن رات کرتے رہتے ہیںجنہیں وہ گناہ سمجھتے ہی نہیںہیں۔ اس سارے پس منظر کو سمجھنے کے لئے اب آئیے شیطان مردود کے گناہ کی طرف جس کے باعث وہ ناصرف راندہ درگاہ ِ رب العزت بنابلکہ اولادآدمی کوہربرے عمل اورگناہ پر اکسانے کاذریعہ بھی قرار پایا۔یہ بڑی غور طلب بات ہے کہ کیا شیطان شرک کا مرتکب ہوا تھا؟ سب جانتے ہیں کہ اولاد آدم کے لئے بیان کردہ سب سے بڑے اور ناقابل معافی گناہ یعنی اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود مان کر شریک سمجھنے والے گناہ عظیم کا، شیطان بالکل بھی مرتکب نہیں ہواتھا۔ اُس نے تو انسان کو قیامت تک گمرہ کرنے کی مہلت بھی اسی رب لاشریک سے مانگی تھی جس نے اسے اپنی بارگاہ سے نکال دیا تھا۔ آدم اور بی بی حوا کے ساتھ اسے بھی زمین پر بھیج دیا تھا۔ کیا شیطان نے کسی نبی کوقتل کیا؟ کبھی جھوٹ بولا؟ کسی پر تہمت باندھی ؟ کبھی زنا کیا ؟ سودکھایا؟ کہیں چوری کی؟ ہزاروں برس تک فرشتوںصف میں رہ کراللہ کی عبادت میں کبھی کوئی کوتاہی کی؟ ان سارے سوالوں کو جواب نفی میںہے۔ اُس نفی میںہے جوہرکلمہ پڑھنے والا مسلمان پہلے ہر معبود کا ’’لا‘‘ سے انکار کرتا ہے اور پھر ’’مگر اللہ ‘‘ کا اقرار کرتاہے۔ شیطان نے تو اللہ کی عزت کی قسم کھا کر لوگوںکو گمراہ کرنے کی مہلت مانگی تھی۔ شیطان نے آدمؑ کوسجدہ نہ کرنے کی حکم الہٰی کی خلاف ورزی سے پہلے کوئی گناہ نہیںکیا تھا۔ تبھی تو جن ہوتے ہوئے بھی فرشتوںکی صف میں عبادت کررہا تھا۔ ۔ پھر شیطان ،شیطان کیوں بنا؟ شیطان نے بظاہر ایک لیکن حقیقت میںدو ناقابل معاف گناہ تخلیے میں نہیں فرشتوں کی لاتعداد صفوں کے سامنے کے اعلانیہ کئے ،جن کے باعث اسی محفل میںاعلانیہ دھتکارا گیا ۔ معتوب ہوا اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں کوبھی دوزخ میں لے جانے والا قرار پایا۔ پہلا گناہ اللہ کی جانب سے کی جانے والی تقرری یعنی آدم کو خلیفہ ماننے سے انکار اور دوسرا گناہ تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو آدم سے بہتر سمجھنا اور اللہ کے انتخاب کو ناقص جاننا تھا۔ ظاہر ہے جب اُس نے اس بنیاد پر کہ آدم ؑ مٹی سے بنایا گیا اور وہ آگ سے اور اس کی دانست میں آگ مٹی سے افضل تھی اس لئے وہ آدم کو سجدہ کرنے سے انکاری ہوا تھا ۔اللہ چونکہ ہمیشہ سے رحمان اور رحیم ہے اس لئے اس نے ان کھلم کھلا نافرمانیوں پر اسے فوراً بھسم نہیں کردیا بلکہ اسے دھتکارنے کے بعد اس کی مہلت مانگنے کی درخواست بھی قبول کرکے اُسے اپنی من مانی کرنے کی ایک وقت معینہ تک صراط مستقیم پر بیٹھنے کی کھلی چھٹی بھی دیدی ۔ اس کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ جو سب سے بڑا گناہ جس کا شیطان مرتکب ہوا ،وہ اللہ کے حکم میںپنہاں انتخاب کو تسلیم نہ کرنا تھا۔ زمین والوں کو اس سے بڑی واضح اور واشگاف ہدایت مل گئی کہ اللہ کے انتخاب کو تسلیم کرنا ہی اصل ایمان ہے ۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ، رسول اور نبی اللہ نے بھیجے اور سب کا انتخاب اللہ نے کیا، جنہیں تسلیم کرنا ہی ایمان باللہ کہلاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کاقرار دیا گیا حلال ہی حلال ہوتا ہے اور اُسی کا حرام ہر حال میںحرام ہوتا ہے ۔ کوئی بھی اللہ کے حلال کو حرام اور اس کے حرام کو حلال نہیں کرسکتا۔ پانچ نمازوں کو چار یا چھ کرنے کا کس کو اختیار نہیں، روزے ماہ رمضان کیلئے ہی رہیں گے ۔ حج بیت اللہ سال میں ایک مرتبہ ہی رہے گا، جھوٹے ،ظالم، منافق اور جن جن پر اللہ نے لعنت کی ہے وہ ہمیشہ لعنتی ہی رہیں گے اورجن جن کو اللہ نے درود اور سلام کا حقدار بنایا ہے وہ ہمیشہ سچے اور ایسے پاک وپاکیزہ رہیں گے جیسے کہ پاک وپاکیزہ رہنے کا حق ہے۔ ایک حدیث مبارک ہے کہ ’’ میری امت کے عام لوگوں کی اصلا ح اس وقت تک ممکن نہیںجب تک کے میری امت کے خواص کی اصلا ح نہ ہوجائے ‘‘ ایک صحابی نے پوچھا آپؐ کی امت کے خاص لوگ کون ہیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا ’’میری امت کے خاص چار گروہ ہیں ۔ ا۔ حکومتی سربراہ ، ۲۔ دانشور، ۳۔ عابد اور ۴۔ تاجر ‘‘ اللہ ہمیں شیطان والے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔
QOSHE - شیطان کا گناہ - موسیٰ رضا آفندی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

شیطان کا گناہ

17 0
02.12.2023




گناہ وثواب سے ہم سب واقف ہیں ۔ اسی سے جنت اور دوزخ کا تصور وابستہ ہے۔جرم اور گناہ میں یہ فرق ہے کہ جرم حکومتی یا ریاستی قانون توڑنے کو کہتے ہیںاور گناہ دینی اور مذہبی احکامات کی نافرمانی کو کہتے ہیں۔ جرائم کی سزائوں کا تعلق آدمی کی زندگی تک محدود ہوتاہے جبکہ گناہوں کی سزائیںقیامت تک جاتی ہیں ۔دنیاوی قوانین چونکہ لوگ ہی بناتے ہیںاس لئے بنتے بگڑتے رہتے ہیں ۔ دینی قانون اللہ بناتاہے اسلئے ہمیشہ قائم رہتاہے۔ دنیاوی قوانین میں آئے دن ترمیم اورجمع تفریق ہوتی رہتی ہے جبکہ دینی قانون ہمیشہ اٹل اورنافذ رہتے ہیں۔ گناہوں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں جنہیں عموما ً کبیرہ اور صغیرہ میں متعارف کرایا گیا ہے ۔ صغیرہ گناہوں کی تکرار انھیں کبیرہ گناہ بنادیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہرنافرمانی گناہ کہلاتی ہے ۔ہم صغیرہ اور کبیرہ گناہوںکا ذکر اسلئے کرتے ہیں کیونکہ خوددین نے یہ تقسیم متعارف کرائی ہے۔ کبیرہ گناہ وہ ہوتے ہیںجن کی انجام دہی پرقرآن او ر حدیث میںدوزخ کی وعیدہے۔ سورۃ نسا ء کی آیت 31اورسورۃشوریٰ کی آیت37میں بعض کبیرہ گناہوںکا ذکر ہوا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کوئی کبیرہ گناہ کرے اوراس کے بعد اللہ سے توبہ کرے۔کبیرہ گناہوںکی تعداد 40تک بتلائی گئی ہے جن میں دیگر کے علاوہ شرک کرنا، اللہ کی رحمت سے مایوسی ، بے گناہ کا قتل کرنا، یتیم کامال کھانا ، میدان جہاد سے فرار ، ربایعنی سُود کھانا ، سحراور جادو ٹونے کا مرتکب ہونا، زنا کرنا تہمت لگانا، واجب زکواۃ ادا نہ کرنا ، شراب پینا ، وعدہ خلافی ، قطع رحمی ، چوری ، ناحق شہادت دینا ، جواء کھیلنا ، کتے سور یا اس جانور کا گوشت کھانا جو شرعی طریقے سے حلال نہ کیا گیا ہو، اور........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play