بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سابق اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ کمروں میں بیٹھ کر الیکشن نتائج تیار کئے جا رہے ہیں۔ہم تو ریاست کے وفادار ہیں ، ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ ریاستی قوتیں کسی کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ ’’پاکستان مہنگائی لیگ‘‘ کو عوام شکست دیں گے۔عوام اگر صرف سندھ میں رہتے ہیں تو شائد بلاول کامیاب ہو جائیں،پنجاب میں تو ایسا امکان دور دور تک نہیں بلکہ جو مہنگائی کا سبب ہیں وہ مزید دانت تیز کئے بیٹھے ہیں۔ اگرچہ اب ہر موضوع پر بات ہو سکتی ہے۔ کھیل، تصوف، ادب، تاریخ، سماجیات۔ لیکن جب بھی معیشت، آئین اور غیر جمہوری سیاست کی بات کریں ہاتھ کی ساری انگلیاں ان جماعتوں کی طرف اٹھ جاتی ہیں جو پی ڈی ایم کا حصہ تھیں اور جنہوں نے پی ڈی ایم کی تشکیل کا ایجنڈہ ترتیب دیا۔ الیکشن قریب آنے کا امکان پیدا ہوا تو اب سب کی زبان سے جزوی سچ ٹپکنے لگے۔ معلوم ہے لوگوں کے پاس جانا ہے، ووٹر ناراض ہے۔ ووٹر سیاسی اکابر اور قائد کی بات پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ مولانا فضل الرحمن جس قدر بے قرار تھے کسے نہیں معلوم ؟اب کہہ رہے ہیں میں نے اکابرین کے سامنے کہا تھا کہ’’ عدم اعتماد کے بعد ہمیں حکومت نہیں لینی چاہئے۔ انتخابات کی طرف جانا چاہئے۔ہم سے غلطی ہوئی‘‘۔ اختر مینگل کئی اعتراضات الگ کر رہے ہیں بلکہ وہ تو ریاست کو بلیک میل کرنے کی ایک کوشش کر چکے ہیں۔محمود اچکزئی کا دکھڑا اب کوئی سننے کو تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم حکومت کے آخری دو ہفتوں میں خود کو دوبارہ جمہوری اور عوامی سوچ سے جوڑنے کی کوشش کر دی تھی۔ تب سے لوگوں کو یقین دلا رہی ہے کہ وہ سچی، جمہوری جماعت اور صرف عوام کے ووٹ کی طاقت پر بھروسہ کرتی ہے لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ پی ڈی ایم کی سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی جماعت مسلم لیگ نواز کہہ رہی ہے کہ وہ اکیلی فیصلے نہیں کر رہی تھی، اتحادی جماعتوں کی قیادت ہر معاملے میں شریک تھی۔ اس صورت حال کے کئی نتائج نکالے جا سکتے ہیں جو نتیجہ آپ کے سامنے اب تک نہیں آیا وہ یہ ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم جماعتوں کی عوامی مقبولیت اور حمایت کم ہونے کا ایک ٹھوس تاثر قائم ہو چکا ہے۔ اس تاثر کی بنیاد پر یہ امکان تلاش کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ حکومت اور پارلیمنٹ کی شکل کیا ہو گی۔ یہ ماڈل پی ڈی ایم سے ملتا جلتا ہو سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر کون بیٹھتا ہے۔ دو دن پہلے ہم جہلم جا رہے تھے۔ شہر سے کچھ پہلے جی ٹی روڈ کے دونوں جانب گھنے درختوں نے سڑک کو ڈھانپ رکھا تھا۔ ایک کلو میٹر کے لگ بھگ کا یہ ٹکڑا لگتا ہی نہیں پاکستان کا حصہ ہے۔ یہ علاقہ نیشنل پارک قرار دیا گیا ہے۔ یہاں درخت کاٹنا اور جانوروں کا شکار جرم ہے۔ ہم رکے اور کچھ تصاویر بنا لیں۔ وطن عزیز کے وسیع و عریض لینڈ سکیپ میں کچھ اور ٹکڑے بھی ہیں لیکن مجموعی طور پر آلودگی، گندگی، ناتراشیدہ روئیے اور حد سے زیادہ خود غرضی نے ہر منظر کو گدلا اور بدصورت بنا رکھا ہے۔ سیاست چونکہ سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والا موضوع ہے اس لیے اس کی تمام حرکیات اور پیڑ پودے عوام کی نگاہ میں رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے آسانی پیدا کر دی ہے کہ پہلے سیر کا ایک سوا سیر ہوتا تھا، اب کوئی سیر ہے تو ہزاروں سواسیر اس کی تاریخ اور ماضی کے دعوے اٹھا لاتے ہیں۔ نواز شریف ان ہی سوا سیروں سے خائف ہو کر اب سوچ رہے ہیں کہ وہ اپنی پیشانی پر چپکے ’’لاڈلے‘‘ کا عنوان کیسے مٹائیں۔آئی جے آئی کا داغ ہے، ہیوی مینڈیٹ کا داغ ہے،چوری ملاقاتوں کے دھبے ہیں،انتخابات پر اثر انداز ہونے کی مشینری ہے ۔ انتخابات ہونے کے بعد کیا پاکستان مستحکم ہو پائے گا؟ اس سوال کا جواب تلاش کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ انتخابات کا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع ملے گا۔ پی ٹی آئی کے داخلی مسائل کی وجہ سے باقی جماعتوں کی رینکنگ ہو سکے گی۔ اگر سیاسی رہنمائوں کی نئی کھیپ آئی تو شاید از سر نو قومی ایجنڈے کی ترتیب پر بھی توجہ دی جا سکے۔ پرانے لوگوں کا اقتدار میں آنا ظاہر کرے گا کہ جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلتا رہے گا۔ ان حالات میں نواز شریف کے سامنے ایک چیلنج آتا ہے۔ وہ اقتدار کے جس قدر قریب ہوتے جائیں گے ان کی پیشانی پر ’’لاڈلے‘‘ کی تحریر کا رنگ شوخ ہوتا جائے گا۔ لاڈلا بہرحال ایک کردار نہیں ٹائٹل ہے۔ہر دور کا نیا لاڈلا ہوتا ہے۔نواز شریف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سب سے زیادہ بار لاڈلا بنے۔ان کے پاس ایسی ٹیم ہمیشہ رہی ہے جو انہیں لاڈلا بنوا کر اقتدار تک پہنچاتی ہے۔اس بار بار کے عمل نے مسلم لیگ ن کی شناخت جمہوری جدوجہد کرنے والی اور جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والی جماعت سے زیادہ لاڈلی بیگم کے طور پر مستحکم کی ہے۔نواز شریف جب بھی اقتدار میں آتے یا جاتے ہیں ان کے ساتھ خصوصی حسن سلوک لاڈلا ہونے کی بات پر یقین پختہ کر دیتا ہے۔ بائیں بازو کے بزرگوں کی صحبت میں رہنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر معاملے پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کی عادت سے بندہ محفوظ رہتا ہے۔ کسی وقت یہ کہا جاتا تھا کہ فلاں جماعت کے سیاسی کارکنوں نے تشدد اور قید کی سزائیں کاٹیں۔ بھٹو صاحب کی موت نے سیاسی قائدین کے لیے ایک معیار قائم کر دیا۔ اب کسی سیاسی رہنما کو عظیم ہونے کا دعویٰ کرنا ہے تو اسے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ لاڈلا نہیں۔ اسے جمہوریت کے لیے اپنی قربانیوں کا آڈٹ کرانا ہو گا۔ بتانا ہو گا کہ ہر بار وہ قید ہو کر پتلی گلی سے کیسے نکل جاتا ہے۔ بتانا ہو گا عدالتی کارروائی کے دوران پروٹوکول کا انتظام کیسے ہوتا ہے۔ بتانا ہو گا کہ چند روپے کے اشٹام پیپر پر ضمانت کیسے مل جاتی ہے۔ بتانا ہو گا کہ اپنے ساتھیوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اس سب بتانے کے دوران کاروبار سیاست میں کی گئی سرمایہ کاری کا حساب بھی دینا چاہئے کہ اگر پیشے کے خانے میں سیاست لکھنا ہے تو اس دھندے کو چلانے کے لیے سرمایہ کس نے ،کب اور کیسے فراہم کیا۔ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے، نواز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں یا نہیں لیکن ان کے سامنے ایک بار پھر قربانیاں دینے کا نیا معیار آ گیا ہے۔ وہ عوام کی خاطر اگر کبھی سزا کاٹیں گے یا کوئی قربانی دیں گے تو شاید پچھلے لکھے صفحات صاف ہو جائیں ورنہ دفتروں میں ’’لاڈلا رجسٹر ‘‘ ضخیم ہوتا چلا جائے گا۔
QOSHE - ’’لاڈلا‘‘ - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

’’لاڈلا‘‘

9 0
16.11.2023


بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سابق اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ کمروں میں بیٹھ کر الیکشن نتائج تیار کئے جا رہے ہیں۔ہم تو ریاست کے وفادار ہیں ، ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ ریاستی قوتیں کسی کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ ’’پاکستان مہنگائی لیگ‘‘ کو عوام شکست دیں گے۔عوام اگر صرف سندھ میں رہتے ہیں تو شائد بلاول کامیاب ہو جائیں،پنجاب میں تو ایسا امکان دور دور تک نہیں بلکہ جو مہنگائی کا سبب ہیں وہ مزید دانت تیز کئے بیٹھے ہیں۔ اگرچہ اب ہر موضوع پر بات ہو سکتی ہے۔ کھیل، تصوف، ادب، تاریخ، سماجیات۔ لیکن جب بھی معیشت، آئین اور غیر جمہوری سیاست کی بات کریں ہاتھ کی ساری انگلیاں ان جماعتوں کی طرف اٹھ جاتی ہیں جو پی ڈی ایم کا حصہ تھیں اور جنہوں نے پی ڈی ایم کی تشکیل کا ایجنڈہ ترتیب دیا۔ الیکشن قریب آنے کا امکان پیدا ہوا تو اب سب کی زبان سے جزوی سچ ٹپکنے لگے۔ معلوم ہے لوگوں کے پاس جانا ہے، ووٹر ناراض ہے۔ ووٹر سیاسی اکابر اور قائد کی بات پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ مولانا فضل الرحمن جس قدر بے قرار تھے کسے نہیں معلوم ؟اب کہہ رہے ہیں میں نے اکابرین کے سامنے کہا تھا کہ’’ عدم اعتماد کے بعد ہمیں حکومت نہیں لینی چاہئے۔ انتخابات کی طرف جانا چاہئے۔ہم سے غلطی ہوئی‘‘۔ اختر مینگل کئی اعتراضات الگ کر رہے ہیں بلکہ وہ تو ریاست کو بلیک میل کرنے کی ایک کوشش کر چکے ہیں۔محمود اچکزئی کا دکھڑا اب کوئی سننے کو تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم حکومت کے آخری دو ہفتوں میں خود کو دوبارہ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play